یہ 2015کی بات ہے، جب میں روزنامہ نئی بات میں میگزین ایڈیٹر تھا۔ موبائل پر کال آئی تو اٹینڈ کی۔ کوئی خاتون بول رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا نام عائشہ خان ہے اور ٹی وی آرٹسٹ ہیں: ’’شبیر! تم شاید مجھے نہیں پہچانتے مگر میں تمھارے فیچرز بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ پہلے امت اخبار میں پڑھتی تھی، اب نئی بات میں آگئے ہو تو یہ اخبار گھر پہ لگوا لیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تم مجھ سے بہت چھوٹے ہو۔۔۔ بلکہ میرے بڑے بیٹے کی عمر کے ہوگے۔۔۔ اس لیے میں آپ نہیں کہہ رہی۔ تمھیں برا تو نہیں لگ رہا؟‘‘’’نہیں آپا! بالکل برا نہیں لگ رہا۔ فرمائیے کیسے رابطہ کیا؟‘‘بچے! میں بھی تھوڑا بہت قلم گھسیٹ لیتی ہوں۔ بس، شوقیہ کچھ لکھتی رہتی ہوں افسانے وغیرہ۔ مگر ابھی جو تم سے رابطہ کیا ہے، اس کی
ایک الگ وجہ ہے‘‘’’جی۔۔۔ جی، فرمائیں‘‘۔
’’بھئی، تمھیں معلوم ہوگا کہ خالدہ ریاست میری چھوٹی بہن تھیں۔ اگلے ہفتے اس کی برسی آرہی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی یاد میں کچھ لکھوں۔ کیا تم اسے اپنے اخبار میں شایع کرسکتے ہو؟‘‘
’’جی آپا! کیوں نہیں۔ یہ تو ہمارے لیے بہت اچھا ہوگا کہ آپ کا ایکسکلیوسیو مضمون چھاپیں۔ یا وہی تحریر آپ دیگر اخباروں کو بھی بھیجنا چاہتی ہیں‘‘
’’نہیں، نہیں۔ صرف تم ہی اسے چھاپوگے، اگر زحمت نہ ہو‘‘۔
’’آپا! آپ وہ مضمون کیسے بھیجیں گی؟‘‘
’’بھئی، گھر سے نکل کر تمھارے اخبار کے دفتر آنا آج کل خاصا مشکل ہے۔ کیوں کہ پائوں میں کچھ تکلیف ہے۔ اس لیے ٹی وی پر بھی نہیں جارہی۔ یہ زحمت تم کرسکتے ہو تو مجھ پر احسان ہوگا۔۔۔ کہاں رہائش ہے تمھاری؟‘‘
جی، میں موسمیات سے آگے سچل گوٹھ میں رہتا ہوں‘‘۔’’پھر تو آسانی ہے۔ میں گلشن کے اتوار بازار کے پیچھے نجیب پلازا میں رہتی ہوں جو تمھارے راستے میں پڑتا ہے۔ ایک دو دن میں اگر آجائو تو میرا کام بن جائے گا۔ ویسے میں گڑ کی چائے بہت اچھی بناتی ہوں‘‘۔انھوں نے ہنستے ہوئے اطلاع دی تھی۔خیر، میں دو دن بعد انھیں کال کرکے چلاگیا۔ پلازا کے مین گیٹ پر وہ انتظار کر رہی تھیں اور بہت محبت سے سر پہ ایسے ہاتھ پھیرا، جیسے اپنے کسی برخوردار کو ہم پیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے فلیٹ میں لے آئیں اور سیدھا لے جاکر کمرے میں بٹھایا۔ صوفے کے سامنے رکھی ٹیبل پرکچھ کاغذات رکھے تھے جو اٹھا کر انھوں نے مجھے دیے اور بولیں:
’’جب تک تم یہ پڑھ لو۔۔۔ میں چائے بناکر لاتی ہوں‘‘۔
ان کی تحریر بہت متاثر کن تھی۔ انھوں نے مرحومہ خالدہ ریاست کے بچپن سے بات شروع کی تھی اور ان کے انتقال پر ختم کی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ چائے ، بسکٹ اور نمکو وغیرہ لے آئیں اور پوچھا:
’’پڑھ لیا تم نے؟‘‘۔
’’جی آپا! ماشااللہ، آپ تو بہت اچھا لکھتی ہیں‘‘۔
’’ارے، ایمان کی بات یہ ہے کہ مجھے تو تمھارے فیچرز ہی پسند آتے ہیں۔ سادہ، بالکل گائوں گوٹھ کے لہجے والے ہوتے ہیں اور تم جس بندے سے بھی بات کرتے ہو، اسی کے انداز میں اسے لکھتے ہو۔ یہ بہت اچھا لگتا ہے مجھے‘‘۔
’’شکریہ آپا!‘‘
’’ایک بات اور۔ میرے اس مضمون میں تم جیسے چاہو، کاٹ پیٹ کرسکتے ہو۔ تمھیں پوری اجازت ہے‘‘۔
’’نہیں آپا! آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ بس، ایک آدھ جگہ مجھے لگتا ہے کہ لفظ تبدیل کرنا پڑے گا‘‘۔
’’بالکل کرسکتے ہو۔ میں نے کہا نا کہ پوری اجازت ہے‘‘۔
اور میں نے اپنی کم فہمی کے باعث، ان کے درست لکھے ہوے ایک لفظ ’’گھٹنیوں گھٹنیوں‘‘کو اپنے تئیں ’ درست‘کرکے گھٹنوں گھٹنوں کردیا!
مگر یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے میری غلط فہمی کی نشاں دہی نہیں کی۔
وہ مضمون چھپ جانے کے بعد عائشہ خان ایک دن دفتر نئی بات بھی آئی تھیں اور میں نے انھیں اپنے باس محترم مقصود یوسفی صاحب سے بھی ملوایا تھا، جنھوں نے خود بھی انھیں پیشکش کی تھی کہ وہ نئی بات کے میگزین صفحات کے لیے لکھا کریں۔
اس کے بعد ان سے کچھ اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان دنوں پی ٹی وی پر میرے قریبی دوست اور کرنٹ افیئر کے ہیڈ فدا حسین سومرو کے ہاں میراکافی آنا جانا ہوتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر پی ٹی وی کی کینٹین میں ہم لنچ کر رہے تھے اور عائشہ خان دوسری ٹیبل پر ایک اور معروف آرٹسٹ کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ مگر وہ وہاں سے اٹھ کرہماری میز پر آگئیں اور کہنے لگیں:
’’بھئی شبیر! میں نے تمھیں دیکھا تو ملنے چلی آئی۔ تم لوگ اپنی باتیں جاری رکھو، جب فارغ ہوجائو تو بتانا۔ پھر ہم بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد انھوں نے ایک مرتبہ فون پر رابطہ کرکے، مجھ سے لال مسجد اور جامعہ حفصہ سانحے پر لکھی ہوئی میری کتاب ’’میرا لہو رائیگاں نہیں ہے‘‘دینے کی فرمائش کی تھی۔ جب میں کتاب لے کر ان کے گھر پہنچا تو وہ کھانا بنائے بیٹھی تھیں اور میرا انتظار کر رہی تھیں۔ اُس دن لنچ کرانے کے بعدانھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنے فیچرز کو ڈرامائی شکل دو:
’’ ہمارے ہاں ٹی وی چینل عموماً نئے ڈرامہ رائٹرز کے پیسے کھاجاتے ہیں مگر میں تمھاری مدد کروں گی اور کوئی بھی ایسا مسئلہ ہونے نہیں دوں گی‘‘۔
مگر میں اپنی روایتی سست کی وجہ سے وہ کام بھی نہ کرسکا۔ حالاں کہ دو ڈرامے لکھنا شروع بھی کیے تھے مگر ادھورے چھوڑ دیے۔
اس کے بعد میں سچل گوٹھ سے کہیں اور شفٹ ہوگیا تھا، اس لیے پھر عائشہ خان صاحبہ سے رابطہ نہیں رہا۔
اور کل رات ان کی دلدوز موت کی خبر آگئی۔ وہ برسوں سے تنہا رہ رہی تھیں، اس لیے ان کی بیماری یا موت کا بروقت پتا نہ چل سکا اور ایک ہفتے بعد جب ان کے گھر سے بُو اٹھی، تب پڑوسیوں نے دروازہ کھلوایااورپتا چلا کہ کئی دن پہلے ان کا انتقال ہوچکا تھا۔
No comments:
Post a Comment