Wednesday, August 31, 2022

افغانستان سے امریکی فورسس کے انخلا کاایک سال مکمل

 کابل: طالبان آج افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کا ایک سال پورا ہونے پر جشن منا رہے ہیں جس کے لیے چہارشنبہ کو عام تعطیل ہے۔



فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج کی قیادت میں نیٹو افواج 20 سال تک افغانستان میں رہیں، اس دوران شدید لڑائی بھی دیکھنے کو ملی اور ان کے نکلنے پر طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا۔



فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج کی قیادت میں نیٹو افواج 20 سال تک افغانستان میں رہیں، اس دوران شدید لڑائی بھی دیکھنے کو ملی اور ان کے نکلنے پر طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا۔


افغانستان کے نئے حکمرانوں اپنے سخت گیر موقف پر مشتمل ضابطے پھر سے نافذ کیے ہیں، جن کو ابھی تک کسی کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے جبکہ عملی طور پر خواتین کو عوامی زندگی سے خارج کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب تمام تر پابندیوں اور انسانی بحران کے باوجود افغانستان کے بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ غیرملکی افواج چلی گئیں جن کی وجہ سے طالبان کی شورش میں اضافہ ہوا تھا۔

کابل کے رہائشی زلمے نامی شخص کا کہنا ہے کہ ’ہم خوش ہیں کہ اس ملک کو کافروں سے نجات مل گئی اور اسلامی امارت وجود میں آئی۔

پچھلے سال 31 اگست کی رات غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس سے تقریباً 20 سال تک جاری رہنے والی امریکی جنگ کا خاتمہ ہوا جو 9 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ٹوئن ٹاورز پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی

اس لڑائی میں 66 ہزار افغان جنگجو اور 48 ہزار کے قریب عام شہری ہلاک ہوئے جبکہ امریکہ کے 2ہزار 461 عہدیدار ہلاک ہوئے جسے امریکی شہریوں کے لیے برداشت کرنا کافی مشکل ثابت ہوا۔اسی طرح نیٹو میں شامل ممالک کے تین ہزار پانچ سو فوجی بھی مار گئے۔

پرکشش زیورات

 پرکشش مصنوعی زیورات



کپڑوں کی خریداری کے بعد خواتین کی اولین ترجیح

خواتین صرف میک اپ پر ہی توجہ نہیں دیتیں بلکہ زیورات کے جدید ترین ماڈلز پہننے کو بھی اولین ترجیح دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ زیورات میں خواتین کی دلچسپی غیر معمولی ہوتی ہے۔امیر ہو کہ غریب ہر خاتون زیور پہننے کی خواہش رکھتی ہے مگر چند خواتین حالات کی مجبوری سے طلائی و نقرئی اور پلاٹینم جیولری پہننے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔لیڈیز کی زیب و زینت میں زیورات کو اول مقام حاصل ہے۔البتہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ زیورات کی دھات اور ان کی بناوٹ کے علاوہ اسٹائل میں بھی فرق آنے لگا ہے تاہم خواتین،خوبصورت نظر آنے کیلئے زیورات ضرور پہنتی ہیں خواہ وہ سونے،چاندی کے ہوں یا پھر پلاسٹک،ہاتھی دانت یا پھر مصنوعی جیولری ہی کیوں نہ ہو۔سب سے منفرد اور جدا نظر آنے کیلئے صنف نازک میں ایک مسابقتی جذبہ پایا جاتا ہے ،اس لئے وہ جیولری کے جدید ڈیزائن کی خواہشمند و طلب گار رہتی ہیں۔


شادی بیاہ ہو یا عید و تہوار،ملبوسات کی خریداری کے بعد جیولری کے انتخاب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ہوش ربا مہنگائی کے باعث طلائی و نقرئی زیورات کے استعمال میں کمی ضرور آئی ہے مگر مصنوعی اور ہاتھی دانت کے بنے زیورات کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔یہ زیورات ہر رنگ اور ڈیزائن میں بہ آسانی دستیاب رہتے ہیں۔ سونے اور پلاٹینم کے زیورات میں قیمتی پتھروں کے استعمال کا فیشن بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔گلے کا ہار، آویزے،مانگ ٹیکہ اور گلے کے علاوہ انگوٹھی کے زیور میں بھی یاقوت،زمرد،نیلم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ان پتھروں سے چاندی کے زیورات کی قدر بڑھ جاتی ہے اور زیورات کے پہننے سے خواتین کے حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔


مصنوعی جیولری کے فیشن رجحانات میں چھوٹے ٹاپس،کفلنگ ٹاپس،بالیاں،جبکہ مصری اور ترکش بالیوں کا فیشن عام ہے، نیپالی، ترکش،سری لنکناور مصری جیولری خریدنے کا رجحان زیادہ ہے جبکہ مقامی جیولری بھی دستیاب ہے

ملکہ برطانیہ الزبتھ : دنیا کی عہد ساز ملکہ

 ملکہ برطانیہ الزبتھ : دنیا کی عہد ساز ملکہ


جب پچانوے سالہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے اپنی گاڑی خود چلائی تو دنیا حیران رہ گئی۔



ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے یکم نومبر2021ء کو جب صحت یاب ہونے کے بعد خود اپنی گاڑی ڈرائیو کی تو گاڑی چلاتے ہوئے ان کی تصاویر پوری دنیا کی توجہ بن گئی تھیں۔ ان تصاویر کو شاہی فوٹو گرافر نے اس وقت عکس بند کیا ، جب95 سالہ ملکہ برطانیہ ( ملکہ الزبتھ 21 اپریل 1926کو پیدا ہوئیں )ونڈسرکیسل اسٹیٹ میںگاڑی چلارہی تھیں۔ ان تصاویر میںبرطانیہ کی ملکہ الزبتھ کو گاڑی کے ٹائر کے پیچھے اسکارف اور دھوپ کا چشمہ پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ کے ڈاکٹرز نے ملکہ کو دو ہفتے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ انہیں کوویڈ 19 سے متعلق کوئی خطرہ بھی نہیںتھا۔ یہ مشورہ آئرلینڈ کے سفر پر جانے کیلئے تیاری کررہی تھیں مگر تیاریوں کے آخری لمحات میں انہیں اس سفر سے دستبردار ہونا پڑا اوریوں وہ سفر پرجانے کے بجائے اسپتال میںداخل ہوگئی تھیں۔ جہاں ان کے مختلف میڈیکل ٹیسٹ بھی کئے گئے تھے۔

کیونکہ ملکہ برطانیہ کی طبیعت عین موقع پرناساز ہوگئی تھی۔ یوں برسوں بعد ملکہ کو اس طبی مشورے کے بعد ایک رات کیلئے ہسپتال میںرہنا پڑا اوراس طبی مشورے کی بنیاد پر انہیںطے شدہ دورئہ شمالی آئر لینڈ منسوخ کرنا پڑتاتھا۔یاد رہے ملکہ برطانیہ چندد ن کیلئے آرام کرنے کا یہ طبی مشورہ خاصی ہچکچاہٹ کے بعد مانا تھا۔ اس پر شاہی محل کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ ملکہ برطانیہ شمالی آئرلینڈ کا دورہ ملتوی ہونے پر مایوس ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے شمالی آئرلینڈ کے دورے کے دوران کئی طے شدہ پروگرامز میں شرکت کرنا تھی۔ اس بیان میں ملکہ کی طرف سے شمالی آئرلینڈ کی عوام کیلئے نیک خواہشات کااظہار کیاگیا تھا اور مستقبل میںآئرلینڈ کے دورے کے حوالے سے امید بھی ظاہر کی گئی تھی۔


بکنگھم پیلس کے مطابق وہ محل سے باہر نکلنے پر اس لیے مجبور ہوئی تھیں کہ انہیں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاسCOP26 کے افتتاحی موقع پر استقبالیہ میںشرکت کرنا تھی۔ کوویڈ کی وباء کے دنوں میں بھی اپنی مضبوط قوت ارادی کی مالک ملکہ برطانیہ صحت کے مسائل کے باوجود ویڈیولنک کے ذریعے متعدد ورچوئل پروگرامز کے سامعین اورناظرین تک اپنی بات پہنچاتی رہی ہیں۔ اس پر برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے کہاتھا ’’ میں نے ملکہ سے گزشتہ ہفتے بات کی تھی، میں یہ کہہ سکتاہوں کہ وہ ‘‘ بہت اچھی فارم میں ہیں۔‘‘بکنگھم پیلس نے مزید کہا ہے کہ ریاست کی سربراہ ہونے کے ناطے ملکہ برطانیہ کی طرف سے جنگ میں لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے اعزاز میں ایک یادگاری تقریب میں شرکت کا پختہ ارادہ رکھتی ہیں۔ گوکہ ڈاکٹر وںنے انہیں کم از کم اگلے دو ہفتوں تک مزید آرام کرنے کیلئے کہا ہے۔

ڈاکٹروں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ملکہ فی الوقت کچھ دیر کیلئے ڈیسک پر مبنی ڈیوٹی انجام دینا چاہیںتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جب کہ اس دوران وہ بروز ہفتہ13 نومبر کو ایک یادگاری میلے میںشرکت سے قاصر ہوںگی۔ اس پر ملکہ نے افسوس کیا ہے۔ ملکہ برطانیہ کے حوالے سے عالمی سطح پر یہ خبر بھی خاصی دلچسپی سے سنی گئی تھی کہ انہوں نے دنیا کی معمر ترین ملکہ کا اعزاز حاصل کرنے کے باوجود عمر رسیدہ افراد کو دیا جانے والا اعزاز ’’اولڈ آف دی ایئر‘‘ لینے سے معذرت کرلی ہے۔

سادگی پسند ملکہ

کہا جاتا ہے کہ ملکہ برطانیہ صرف کفایت شعارہی نہیں بلکہ وہ ماحول دوست بھی ہیں۔ ان کے متعلق جو یہ کہاجاتا ہے کہ وہ رات دیر گئے تک محفل میں جلنے والی لائیٹوں کو خود بند کرنے میں کوئی عار محسوس نہیںکرتیں، اس بارے میں ان کا موقف ہوتا ہے کہ بجلی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح انہوں نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ جانوروں کی کھال سے بناہوا لباس نہیںپہنیں گی، تواس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ بہت سے ایسے جانور پکڑلیے جاتے ہیں جن کی کھال یا بالوں کا لباس بناکر فروخت کیاجاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسے جانوروں کی نسل دن بدن کم ہورہی ہے۔


ملکہ کے اس جذبے نے ان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم آواز بنادیا ہے۔ اگرچہ ملکہ عوامی تقریبات میںشرکت کیلئے نیا لباس پہنتی ہیں لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ اسی حلیے میں نظرنہ آئیں۔ اب انہوں نے ’’سمور‘‘ کی بجائے مصنوعی فروالے ملبوسات کو ترجیح دیناشروع کردیا ہے۔ ملکہ جو بھی لباس پہنتی ہیں، اگرچے اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اوراس انداز میں وقفہ دیا جاتا ہے کہ انہی لوگوں کے سامنے وہ لباس دوبار سے زیادہ نہ پہناجائے۔

انٹرنیشنل میڈیا نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ باقی لوگوں کی طرح ملکہ برطانیہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات نہ اٹھائے جانے پر مایوس ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد ویلز کی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر ملکہ کی براہ راست کوریج کے دوران انہوں نے برملا کہاتھا ’’ مجھے ایسے لوگ جھنجھلا دیتے ہیں جو باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے‘‘ ملکہ نے اپنی جاگیر میں متعدد ماحول دوست تبدیلیاں کیں ہیں، مثلاً بکنگھم محل میںشہد کی مکھیوں کے چار چھتے موجود ہیں، جو محل کیلئے شہد تیار کرتے ہیں ۔ اسی طرح ملکہ نے توانائی کی بچت بھی انتظام کررکھا ہے۔


ملکہ اپنی روزمرہ زندگی کیلئے ہمیشہ سے سادہ اندازکو پسند کرتی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یورپ کے مالیاتی بحران اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ملکہ تمام زندگی پیسے بچانے سے متعلق مسائل سے آگاہ رہتی ہیں۔ بجلی کے استعما ل میں کمی لانے کیلئے ملکہ کے گھروں میں توانائی بچانے والی ایل ای ڈی روشنیاں آزمائشی طور پر استعمال کی جارہی ہیں ، جو86 فیصد کم بجلی استعمال کرتی ہیں ۔ ملکہ کی جاگیر کو گرم رکھنے کیلئے اسے قومی گرڈ سے منسلک نہیں کیاگیا۔ اس کی بجائے بکھگم محل اورونڈسرکاسل میںحرارت اور بجلی کے حصول سمیت قدرتی گیس کو بجلی میں تبدیل کرنے کیلئے مشترکہ پلانٹ اور بوائلر استعمال کئے جاتے ہیں۔ ونڈسرکال 30 فیصد بجلی ہائیڈرو الیکٹر ٹربائز سے حاصل کرتا ہے جو رومنی ویئر کے مقام پر دریائے ٹیمز پر نصب ہیں۔

ملکہ کے باغات میں جنگلی حیات کو پنپنے کاموقع دیا جاتاہے ،اس لیے محل کے باغات بڑی احتیا ط کے ساتھ تیار کئےجاتے ہیں تاکہ وہ مختلف قسم کے کیڑے مکوڑوں کاقدرتی مسکن بن سکیں ۔ لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیروں کومحل کی زمین کے اردگرد جماکیا گیا جہاں بھنورے اور مکڑیاں رہتی ہیں۔ باغات کی انتظامیہ کے مطابق مردہ درختوں اوردرختوں کے زمین میں رہ جانے والے حصے کو چھوڑ دیاجاتا ہے۔ اس طرح حشرات الارض کوانڈے دینے اور لاروے پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ باغات میںدس فیصد زمین پر اونچی گھاس ہے، وہاں320 اقسام کے جنگلی پھولوں کی بہار ہوتی ہے۔ محل میں جنگی پھولوں کو افزائش اورکسی مداخلت کے بغیر برقرار رکھنے کاہر حربہ اپنایا جاتا ہے۔


ملکہ نے حال ہی میں نئے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوںسے کہا کہ وہ اگلے سال یعنی ملکہ کی پلاٹینم جوبلی تقریب سے پہلے پہلے جس قدر ہوسکے درخت لگائیں۔ اس ضمن میںسرکاری سطح پر عوام کو تجربہ کار مالیوں کی معاونت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا گیاتھا۔ اس منصوبے کیلئے ملکہ نے وڈلینڈ ٹرسٹ کے ساتھ شراکت داری کی ہے جو ملک بھر میں اسکولوں سمیت مختلف کیمونٹیز کو30 لاکھ سے زیادہ پودے عطیہ کرے گا۔

ایمبولنس نہیں ملی، شوہر حاملہ بیوی کو بنڈی پر لے گیا

 ایمبولنس نہیں ملی، شوہر حاملہ بیوی کو بنڈی پر لے گیا




کیلاش اہیروال نے بتایا کہ اس کی بیوی کاجل کو زچگی کی تکلیف ہونے پر اس نے پہلے 108 ایمبولینس کو فون کیا لیکن دو گھنٹے تک گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہونے پر وہ بیوی کو سبزی فروخت کرنے والے ٹھیلے پر لٹا کر مقامی صحت مرکز لے گئے۔


دموہ: مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں ایمبولینس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک شوہر کو اپنی حاملہ بیوی کو ٹھیلے پر اسپتال لے جانا پڑا۔ ذرائع کے مطابق ضلع ہیڈکوارٹر سے 60 کلومیٹر دور رنیہ گاؤں میں منگل کو ایک حاملہ خاتون کاجل کو ایمبولنس نہ ملنے پر اس کا شوہر کیلاش اہیروال اپنے گھر سے آروگیہ سنٹر علاج کے لئے ٹھیلے پر لے گیا ۔

الزام ہے کہ تقریباً دو گھنٹے تک یہاں کسی ڈاکٹر یا نرس کی جانب سے علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو فوراً سول اسپتال لے کر پہنچا۔ جہاں سے اسے دموہ ڈسٹرکٹ اسپتال ریفر کر دیا گیا۔

اس سلسلہ میں کیلاش اہیروال نے بتایا کہ اس کی بیوی کاجل کو زچگی کی تکلیف ہونے پر اس نے پہلے 108 ایمبولینس کو فون کیا لیکن دو گھنٹے تک گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہونے پر وہ بیوی کو سبزی فروخت کرنے والے ٹھیلے پر لٹا کر مقامی صحت مرکز لے گئے۔ لیکن وہاں اسے علاج نہیں ملا۔ اس کے بعد وہ بیوی کو لے کر سول اسپتال پہنچا اور بعد ازاں ایمبولینس کے ذریعے ڈسٹرکٹ اسپتال لے کر گیا۔

سول اسپتال ہوٹا کے بی ایم او ڈاکٹر آر پی کوری کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلے میں معلومات ملی تھی۔ اسپتال میں عملہ کی عدم دستیابی کی معاملہ میں متعلقہ ڈیوٹی پر تعینات ملازمین کو نوٹس دے کر تفتیش کی جا رہی ہے۔

Tuesday, August 30, 2022

Rivers System Of Pakistan


 

شدت پسندوں کے سیاسی جماعتوں سے تعلقات

 پشاور(عرفان خان) ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارے) نے شدت پسندوں کی جاری فہرست میں بعض عسکریت پسندوں کی سیاسی وابستگی عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے ظاہر کی ہے۔

ایف آئی اے کی فہرست میں ریاست کو مطلوب افراد کی سیاسی وابستگی ان جماعتوں کیساتھ ہونے کی وجہ سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کوشدت پسند تنظیم لکھا گیا ہے۔
مبینہ شدت پسندوں میں 5کا تعلق مذہبی جماعت جماعت اسلامی،5کا تعلق جمعیت علمائے اسلام(ف)، 2کا مسلم لیگ(ن)، ایک کا عوامی نیشنل پارٹی اور ایک کا پیپلز پارٹی کیساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔
چند ماہ قبل ایف آئی اے نے ریاست کو مطلوب ایک ہزار331شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کی فہرست شائع کی ہے جن میں سب سے زیادہ850 افراد کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ سندھ سے138، بلوچستان سے127، پنجاب سے 118، اسلام آباد سے33اورگلگت بلتستان سے20افراد شامل ہیں۔ جبکہ45افراد کی سکونت سے متعلق ایف آئی اے کے پاس معلومات نہیں ہیں۔جاری فہرست کے صفحہ نمبر762پر دیر میدان سے تعلق رکھنے والے مبینہ شدت پسند نور حیات، صفحہ 763پر دیر اپر سے تعلق رکھنے والے مبینہ شدت پسندخلیل اللہ، صفحہ نمبر764پر دیر اپر سے تعلق رکھنے والے عنایت، صفحہ 765پر اقرار الدین اورصفحہ نمبر766پر دیر اپر سے تعلق رکھنے والے نو ر اسلام کی سیاسی وابستگی جماعت اسلامی کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ مبینہ شدت پسندوں کی سروں کی مجموعی قیمت 2کروڑ60لاکھ روپے مقرر ہے۔ فہرست کے صفحہ560پر مردان سے تعلق رکھنے والے محمد علی جن کو منصور کے نام سے جانا جاتا ہے ان کے سر کی قیمت50لاکھ روپے مقرر ہے۔صفحہ نمبر848پر بنوں کے علاقہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے مولانا صدر حیات کی سیاسی وابستگی جمعیت علمائے اسلام کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت80لاکھ روپے مقرر ہے۔ صفحہ849پر بنوں کے علاقہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے نورزیب خان کی سیاسی وابستگی جمعیت علمائے اسلام کیساتھ ظاہر کی گئی ہے اور ان کے سر کی قیمت 40لاکھ روپے مقرر ہے۔
اسی طرح اس فہرست کے صفحہ نمبر850اور851 پر دیئے گئے تفصیل کے مطابق بنوں کے جانی خیل علاقہ سے تعلق رکھنے والے اختر محمد نامی مبینہ شدت پسند کی سیاسی وابستگی جمعیت علمائے اسلام (ف) کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر ہے۔ اختر محمد کو تحریک طالبان پاکستان کا انتہائی خطرناک کمانڈر بھی قرار دیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر852پر بنوں کے جانی خیل علاقہ سے تعلق رکھنے والے مبینہ شدت پسند زاہد اللہ کی سیاسی وابستگی بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت20لاکھ روپے مقرر ہے۔فہرست کے صفحہ نمبر767 پر دیر اپر کے علاقہ ڈوگ درہ سے تعلق رکھنے والے مبینہ شدت پسند ولی رحمن کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت60لاکھ روپے مقرر ہے۔ ایف آئی اے کی فہرست کے صفحہ نمبر768پر مبینہ شدت پسند عبد اللہ نامی فرد جن کو عابد کے نام سے جاناجاتا ہے ان کی سیاسی وابستگی عوامی نیشنل پارٹی کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت60لاکھ روپے مقرر ہے۔ صفحہ نمبر 769پر دیر اپر کے علاقہ گندیگار سے تعلق رکھنے والے مبینہ شدت پسند بخت زادہ کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ(ن) کیساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ جن کے سر کی قیمت20لاکھ روپے مقرر ہے۔ صفحہ نمبر770پر دیر اپر کے علاقہ گندیگار سے تعلق رکھنے والے ایک اور مبینہ شدت پسند نجیب اللہ کی سیاسی وابستگی بھی مسلم لیگ(ن) کیساتھ ظاہر کی گئی ہے جن کے سر کی قیمت 20لاکھ روپے مقرر ہے.

Natioal Talent Olympaid


 

22 کروڑ نالائقوں کا بوجھ

 22 کروڑ نالائقوں کا بوجھ



جاوید چوہدری

چین کے تین علاقے اس وقت پاکستان سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہیں، یہ علاقے جنوب مغرب میں واقع ہیں، ان کے نام چینگ ڈو، گوانگ یو آن، گارزے اور تبت ہیں، چینگ ڈو کی وادی شی لنگ میں چوبیس گھنٹوں میں 165 اشاریہ ایک ملی میٹر بارش ہوئی، یہ علاقہ سیاحتی ہے اور یہاں ہر سال 70لاکھ سے زائد سیاح آتے ہیں، یہ بھی بری طرح سیلاب سے متاثر ہوا لیکن آپ چین کا کمال دیکھیے۔

حکومت نے ایک رات میں 47 ہزار لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکالا، محفوظ ٹھکانوں پر پہنچایا اور انھیں کھانا، ادویات اور کپڑے بھی فراہم کر دیے اور مقامی اور بین الاقوامی کسی تنظیم سے امداد کی اپیل بھی نہیں کی اور اس سارے آپریشن، بارش اور سیلاب کے دوران کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک کا تیس فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

کوئٹہ شہر کی تمام سڑکیں، پل اور موبائل فون ٹاورز ٹوٹ گئے ہیں، بجلی، گیس اور پانی بھی بند ہے اور اے ٹی ایم اور بینکس بھی جواب دے گئے ہیں، صوبائی دارالحکومت کا باقی ملک سے عملاً رابطہ ٹوٹ چکا ہے، دوسرے علاقوں کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔

متاثرین کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ ہو چکی ہے، یہ گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آہ وزاری کر رہے ہیں، سوال یہ ہے چین ہو، ایران ہو، ترکی ہو، ملائیشیا ہو یا پھر باقی دنیا ہو سیلاب، زلزلے اور خشک سالی وہاں بھی آتی ہے لیکن یہ اپنے لوگوں کو ان آفتوں سے بچا بھی لیتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے بغیر انھیں بحال بھی کر دیتے ہیں، کیسے؟ جب کہ ہم ہر آفت، ہر مصیبت میں اپنے لوگوں کو موت کے حوالے کر کے، امداد، امداد کی صدائیں لگانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں، ہم اسے بھی بھیک کا بہانہ بنا لیتے ہیں، کیوں؟ کیا دوسری اقوام "سپر ہیومین " ہیں یا پھر ہم انسانوں کی کوئی پست ترین شکل ہیں، ہمارا آخر ایشو کیا ہے؟

ہم شاید آج تک اپنی قوم کو آفتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکے، آگ لگ جائے، پانی آ جائے یا کوئی کسی حادثے کا شکار ہو جائے، ہم میں سے کسی شخص کو اس سے نبٹنا نہیں آتا، دوسرا حکومت نے بھی آج تک حادثوں اور آفتوں سے نبٹنے کے لیے کاغذی منصوبوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا، ہم نے قومی سطح پر این ڈی ایم اے اور صوبائی لیول پر پی ڈی ایم اے بنا دیے لیکن یہ بھی نام کے ادارے ہیں اور یہ ہلاکتوں کا ڈیٹا جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، حالت یہ ہے ہم آج تک ملک میں مخیرحضرات کی فہرست تک نہیں بنا سکے۔

حکومت کو چاہیے تھا یہ آفتوں کے دوران کم از کم پانچ ہزار سے ایک کروڑ روپے تک امداد دینے والے مخیر حضرات اور فیملیز کا ڈیٹا اور ٹیلی فون ہی جمع کر لیتی تا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں چندے کے لیے اپیلیں نہ کرنا پڑتیں، حکومت ملک بھر کے تمام کال سینٹرز کو ڈیٹا اور بینک اکاؤنٹ دیتی اور دو دنوں میں امدادی رقم جمع ہو جاتی، ہم کیوں ہر بار ہر آفت میں امدادی کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں؟ کیا ہم 75برسوں میں یہ بھی نہیں کر سکتے تھے، دوسرا ملک میں دعوت اسلامی، سیلانی ٹرسٹ، اخوت، کاروان علم فاؤنڈیشن، ایدھی، چھیپا، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور انجمن طلباء اسلام جیسی سیکڑوں تنظیمیں اور غیرسرکاری ادارے موجود ہیں۔

ملک میں اڑھائی لاکھ سے زائد اسکول(پرائمری، مڈل اور سیکنڈری ملاکر) اورساڑھے تین کروڑ سے زائد طالب علم بھی ہیں، ہم اگر ان تنظیموں اور اداروں کے کارکنوں کے لیے ریسکیو ورک کی ٹریننگ لازمی قرار دے دیں، ہم اگر انھیں آگ بجھانے، زخمیوں کو اٹھانے، سیلاب میں گھرے لوگوں کو نکالنے اور ضرورت مندوں تک خوراک پہنچانے اور بیماروں اور زخمیوں کی مدد کی ٹریننگ دے دیں اور ان سب کی فہرستیں اپنے پاس رکھ لیں اور ضرورت کے وقت انھیں طلب کر کے کام پر لگا دیں تو ہمارے پاس دو چار کروڑ لوگوں کی فورس تیار ہو جائے گی۔

ہم اگر ملک بھر کے اساتذہ ہی کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سکھا دیں تو بھی ہمیں یواین کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور تیسری چیزدنیا کے بے شمار ملکوں میں ہر گھر میں ڈیزاسٹر اور ری پیئرنگ کے آلات ضرور ہوتے ہیں، کیا ہم قوم کو گھروں میں رسے، سیڑھیاں، فالتو بالٹیاں، ہتھوڑیاں اور گینتیاں رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں کر سکتے؟ ہم یہ اصول ہی بنا لیں ملک کا ہر مڈل کلاس شخص اپنے گھر میں ایک ٹینٹ ضرور رکھے گا اور وہ یہ مشکل کے وقت متاثرہ علاقوں میں بھجوا دے گا، ہم ٹینٹ مالکان کی فہرستیں مختلف این جی اوز کو دے دیں اور این جی اوز کے کارکن ضرورت کے وقت ٹینٹ جمع کر کے متاثرین تک پہنچا دیں۔

کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور تک رضا کار اور این سی سی جیسے پروجیکٹ ہوتے تھے، ضلعی انتظامیہ ہر شہر سے رضا کار بھرتی کرتی تھی، یہ لوگ مشکل وقت میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کرتے تھے، یہ پروجیکٹ آج بھی چل رہا ہے لیکن صرف کاغذوں میں، کالجوں میں این سی سی کے ذریعے طالب علموں کو ملٹری ٹریننگ دی جاتی تھی، ٹریننگ مکمل کرنے والے طالب علموں کو 20 نمبر اضافی ملتے تھے، یہ دونوں پروجیکٹ شان دار تھے۔

دنیا میں امریکا، سوئٹزر لینڈ اور اسرائیل سمیت 103 ملکوں میں ملٹری ٹریننگ اور ملٹری سروسز لازم ہوتی ہیں، رضا کار بھی کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں، ہم یہ دونوں ادارے بحال کیوں نہیں کرتے اور ہم اس کے ساتھ ساتھ ایکسیڈنٹس اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ٹریننگ کیوں شامل نہیں کرتے؟ میں مدت سے عرض کر رہا ہوں حکومت گاڑیوں میں آگ بجھانے کے سلینڈرز، کمبل، ٹارچ، رات کے وقت چمکنے والی جیکٹس اور اضافی خوراک لازم قرار دے لیکن ہم نے آج تک یہ بھی نہیں کیا، فلڈ مینجمنٹ کی باری تو ہزار سال بعد میں آئے گی، کیا ہم واقعی قوم کہلانے کے حق دار ہیں؟

میں اس سیلاب کے دوران تین خوف ناک حماقتیں دیکھ رہا ہوں، پہلی حماقت نقد امداد ہے، ہم متاثرین کو براہ راست نقد امداد بھجوا رہے ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں کے تمام بینکس، اے ٹی ایم اور ایزی کیش کے سینٹرز پانی میں ڈوب چکے ہیں لہٰذا متاثرین کو رقم کیسے ملے گی؟ اور اگر یہ مل بھی جائے تو کیا سامان خریدنے کے لیے دکانیں اور منڈیاں کھلی ہیں اور کیا سڑکیں، پل، ٹرانسپورٹ اور گاڑیاں موجود ہیں؟ دوسرا ہم متاثرین کے سروں پر آٹا، دالیں، چاول، چینی اور گھی کی بوریاں پھینک رہے ہیں، حکومت ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بوریاں داغ رہی ہے جب کہ این جی اوز کشتیوں کے ذریعے خشک راشن پہنچا رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ خشک راشن کو پکائیں گے کیسے؟ متاثرین پانچ پانچ فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

کیا یہ اس پانی میں چولہے جلا سکیں گے؟ کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں، گیس یا بجلی کہاں سے آئے گی اور کیا پھر یہ لوگ خشک راشن کھائیں گے اور تیسرا ایشو پورے ملک میں اس وقت امدادی کیمپ لگے ہوئے ہیں، یہ کون لوگ ہیں اور یہ رقم جمع کر کے کہاں بھجوا رہے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا، حکومت بھی اس سے لاتعلق ہے، کیا ہم ان حماقتوں سے متاثرین کی مدد کر سکیں گے؟

میری درخواست ہے حکومت فوری طور پر ان اداروں کی فہرست اور اکاؤنٹس جاری کر دے جنھیں یہ امدادی کاموں کا اہل یا جینوئن سمجھتی ہے، یہ بے شک فوج کو ذمے داری دے دے لیکن کسی ایک کو اس صورت حال کو لیڈ کرنے دیں، پینک نہ کریں، دوسرا سیلاب میں پھنسے لوگوں کو خشک راشن نہ دیں، آپ بھنے ہوئے چنے، بھنے ہوئے چاولوں، گڑ اور میوہ جات کا مرونڈا بنائیں، آدھ آدھ کلو کے واٹر پروف پیکٹ بنائیں اور متاثرین میں یہ پیکٹ تقسیم کر دیں۔

متاثرین فوری طور پر ان سے اپنی بھوک مٹا لیں گے، یہ مرونڈا پنجاب، سندھ اور کے پی میں عام بنتا ہے، آپ بس اس میں تھوڑا سا کوکنگ آئل یا گھی بھی ڈال دیں تاکہ خوراک کے تمام اجزاء پورے ہو جائیں، مرونڈا مکمل خوراک ہو گا، اسے ہر عمر کے لوگ کھا سکیں گے اور اسے پکانا بھی نہیں پڑے گا، سیلاب زدہ علاقوں میں جب پانی اتر جائے تو آپ بے شک لوگوں کو خشک راشن پہنچانا شروع کر دیں اوراب میری عوام سے بھی درخواست ہے خدا کے لیے اگر حکومت میں خدا ترسی اور عقل نہیں ہے تو آپ ہی کچھ عقل کر لیں۔

آپ ہی دس پندرہ فیملیوں کے گروپ بنا کر لوگوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دیں، دس دس، بیس بیس خاندانوں کی این جی اوز بنا کرلوگوں کی حالت بدلنا شروع کر دیں اور مہربانی فرما کر اپنے گھر اونچی جگہوں اور کچن دوسری اور تیسری منزل پر بنا لیا کریں اور چھت پر ممٹی بنا کربرسات کے موسم میں اس میں پانی، خوراک، ٹینٹ اور ایندھن محفوظ کر لیا کریں تاکہ ناگہانی صورت حال میں آپ اور آپ کا خاندان کم از کم دو چار دن تو نکال سکے اور آپ یہ بندوبست کرنے کے بعد دوسرے لوگوں کو بتا اور سمجھا دیا کریں تاکہ یہ بھی آفتوں سے بچ سکیں۔

یہ ملک آخر کب تک 22 کروڑ نالائقوں کا بوجھ اٹھائے گا، ہم سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا لیکن آغاز کون کرے گا؟ شاید ہم باقی زندگی بھی یہ کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ کر بیٹھے رہیں گے

Monday, August 29, 2022

علم اعداد کیسے معلوم کیے جاتے ہیں؟

 

علم الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ

اول: تاریخ پیدائش

مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12-7-1990 ہے۔

ان تمام اعداد کو مفرد کریں۔یعنی باہم جمع کریں۔

1+2+7+1+9+9🟰29

29 کو بھی ہاہم جمع کریں۔2+9🟰11 آئے گا۔

11 کو مزید جمع کریں تو1+1🟰2 آئے گا۔

اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہےجب تک حاصل شدہ مفرد نا آئے۔پس آپکا لائف پاتھ/نمبر ہے۔

گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر نکلا 2.


دوم: ناموں سے
سائل اسکی والدہ اور والد کے ناموں کے اعداد کو مفرد کریں۔
مثلاً احسن: والدہ: شمسہ والد: راشد
حروف ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے۔
 1 کے حروف (ا۔ء۔ی۔ق۔غ)
2کے حروف(ب۔ک۔ر)
3کے حروف (ج۔ل۔ش)
4کے حروف(د۔م۔ت)
5کے حروف(ہ۔ن۔ث)
6کے حروف(و۔س۔خ)
7کے حروف(ز۔ع۔ذ)
8کے حروف(ح۔ف۔ض)
9کے حروف(ط۔ص۔ظ)

احسن کے نمبر: (1.8.6.5)
مفرد کریں: (1+8+6+5)🟰20
2+0🟰2



شارک کا گوشت بطور حیاتی ایندھن

 نیوکلیائی بیاٹری 7 سال تک 20 ہزار گھروں کو روشن رکھنے کی صلاحیت کی حامل


متبادل ذرائع توانائی کی جستجونے سائنسدانوں کو زمیں سے فلک تک دوڑادیا



شارک کا گوشت بطور حیاتی ایندھن

دنیا میں متبادل ذرائع توانائی کے لیے کئی طریقے اپنائے جارہے ہیں یا پھر ان پر تحقیق کی جارہی ہے ۔ لیکن گرین لینڈ کے مغرب میں واقع سسی میوت (Sisi muit)میں قائم آرکٹک ٹیکنالوجی سینٹر (ARTEK)کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ تجربات کے ذریعے ایسا طریقہ وضع کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ جس کے ذریعے گرین لینڈ میں پائی جانے والی شارک کی سب سے بڑی نوع (گرین لینڈ شارک ) کے گوشت سے حیاتی انیدھن حاصل کیا جاسکے گا ۔


شارک کی یہ نوع گرین لینڈ میں بکثرت پائی جاتی ہے ۔ لیکن ماہی گیر اس سے دور رہنا پسند کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا گوشت زہر آلودہ ہوتا ہے اور اگر غلطی سے کوئی شخص مذکورہ شارک کا یہ زہر یلا گوشت استعمال کرلے تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال آرکٹک کے سرد پانی سے ہزاروں کی تعداد میں یہ شارک ماہی گیروں کے پھینکے گئے جال میں پھنس کر ہلاک ہوجاتی ہیں۔

گرین لینڈ شارک ، خونخوار اور مردم خور گریٹ وائٹ شارک جنتی بڑی ہوتی ہیں اور ان کا وزن لگ بھگ ایک ٹن تک ہوتا ہے ۔ جس حیاتی ایندھن کی ہم بات کررہے ہیں وہ دراصل حیاتی گیس (بایوگیس) کی شکل میں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم سمندر میں ہزاروں ٹن کی مقدار میں پائی جانے والی سمندری حیات بشمول شارک سے متبادل توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔


یہ بات، اے آرٹی ای کے (ARTEK)کے شاخ واقع ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے منسلک میریان ولیمزجورگنسن نے کہی ۔ وہ آج کل، گرین لینڈ کے شمال مغرب میں واقع اُومانک (Ummanaq)نامی قصبے میں جاری اس منصوبے میں سربراہ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں، میریان کا کہنا ہے کہ شارک کے گوشت کو جب خردبینی کائی (Micro-Algae)اور گھروں میں استعمال شدہ پانی کو آپس میں ملاتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا ملاپ ، حیاتی انیدھن پیدا کرنے لگے۔

حیاتی ایندھن دراصل اس قسم کے تلف شدہ نامیاتی اجزاء کو ٹھکانے لگانے کا بہترین حل ہے ۔ اس طریقہ کار کی بدولت ،نہ صرف بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ کاربن کا بھی کم سے کم اخراج ہوتا ہے ۔ مریان نے کہا ۔ ایک اندازہ کے مطابق شارک اور دیگر سمندری حیات سے بنا حیاتی ایندھن فراہم کرنے پر اومانک قصبے کی 13فیصد توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔


میریان اگلے سال، اسی قصبے میں ایک تلف شدہ نامیاتی اجزاء کو آمد بنانے والے پلانٹ میں جسے یورپی یونین رقم فراہم کرے گا تجربات انجام دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان تجربات کے ذریعے شارک کے گوشت کو تلف شدہ پانی اور خردبینی کائی کے ہمراہ ملا کر حیاتی گیس (بایوگیس) بنائی جاسکے گی۔

مجازی پاور پلانٹ

ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہوائی ٹربائین ، آبی بجلی گھر اور ہائیوگیس ہمیں انتہائی صاف اور ماحول دوست توانائی فراہم کرتی ہیں، جس میں کاربن کا اخراج نہیں ہوتا ۔ لیکن ابھی یہ تمام ٹیکنالوجی بالغ نہیں ہوئی اور انہیں رکاز یاتی یندھن کا متبادل بنانے کے لئے بہت کام کی ضرورت ہے ۔ ان ذرائع توانائی میں جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہے وہ ان کی ڈیزائنگ اور انہیں قائم رکھنا ہے ۔

سائنسدان ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت کام کر رہے ہیں ۔ ان ذرائع توانائی میں جو سب سے ہم مسئلہ درپیش ہے وہ ان کی ڈیزائنگ اور انہیں قائم رکھا ہے ۔ سائنسدان ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ور چول ریلیٹی سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال سے (VR)انہیں بنانے اور آپریشن میں مدد گار ثابت ہوگی ۔ فرض کیجئے ، ایک آبی بجلی گھر بنایا جارہا ہے تو سب سے پہلے اس کا ڈریزائن بنایا جائے گا۔

جس کے لیے چند باتوں کا معلوم ہونا ضروری ہے ،جیسے دبائو ، درجہ حرارت اور پانی کا بہائو کتنا ہونا چاہئے ۔ لیکن ان تمام معلومات کا تجزیہ کمپیوٹر کی مد سے ایک گھنٹے میں کیا جاسکتا ہے ۔ اور سافٹ ویئر کی مدد سے پاور اسٹیشن کی نقل بنائی جاسکتی ہے۔ تاہم ، جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ وسیع اعداد و شمار پر مشتمل ہوتے ہیں یا ایک جہتی خاکہ پیش کرتے ہیں۔ میگدبرگ میں واقع فران ہو فرانسٹیٹیوٹ فار فیکٹری آپریشن اینڈ آٹومیشن آئی ایف ایف ، ایک خاص منصوبے پر کام کررہی ہے۔

جس سے متبادل ذرائع توانائی کی صنعت میں شامل لوگوں کا کام انتہائی آسان ہوجائے گا ۔ یہ ایک ایسی تیکنیک کی تکمیل میں مصروف ہیں، جو توانائی بنانے والے پلانٹ کے اندر ہونے والے عمل کا تصوراتی خاکہ پیش کرسکتی ہے ۔ انہوں نے سہہ جہتی پلانٹ کے تعمیری عمل اور سیمولیشن کے نتائج کو ورچول ریلیٹی پروگرام کے ساتھ مشترکہ کر دیا ہے ۔ جیسے (IFF) میں تیار کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر میتھیس گھولا ، جو پروسیس اینڈ پلانٹ انجینئرنگ بزنس یونٹ کے مینیجر ہیں، انہوں نے سافٹ ویئر کے کام کرنے کے طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاص سافٹ ویئر ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم ایسی تمام حرکات کا تسلسل میں مشاہدہ کرسکیں گے جنہیں پہلے دیکھا نہیں جاسکتا تھا اور وہ بھی صرف ایک بٹن دبانے پر۔ اس میں شامل ایرجسے وی آرما ڈل کے ذریعے حرکت دی جاسکتی ہے کسی بھی انجینئر کو پلانٹ میں پانی اور گیس کے بہائو کی سمت متعین کرنے میں مدد کرے گا اور ساتھ ہی پانی اور گیس کی رفتار بھی بتائے گا۔

ان ایروسے ایسے مقا مات، جہاں کارگردگی کم ہے یا درست نہیں کو کسی رنگ کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے ، جیسے کسی مقام پر جہاں درجہ حرارت پر اندیشہ حالت میں ہو یا کم ہو تو اسے درست کیا جاسکے گا۔ علاوہ ازیں یہ سافٹ ویئر پلانٹ کے اندر موجودد پرزہ جات کے ہلنے پر ٹکرائو کے امکانات سے بھی خبر دار کر سکتا ہے ۔ مجازی آنکھیں انجینئر نگ میں مدد کریں گی اور شاید اسی وجہ سے پلانٹ کو قابل اعتماد بنائیں گی جس سے اس کی کار کردگی مزید اور توانائی کا اخراج کم ہوجائے گا۔

دوسری جانب ڈاکٹر مارٹن اینڈگ ، جو اس منصوبے کے منیجر ہیں انہوں نے (VR)کی خویبوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل ، پلانٹ میں ہونے والے روز مرہ کے معلامات میں بھی مدد کرے گا۔ اس کی مدد سے لمبی چوڑی دستاویزات کو یکجا کر کے ایک نظام کی شکل میں ڈھا لا جاسکتے گا جس سے انجینئر پلانٹ میں موجود کسی بھی پرزے کی معلومات ایک بنٹ دبانے پر حاصل کر سکے گا ۔ انٹر نیٹ پر خبریں کھنگالتے کھناگلتے ایک دلچسپ تحریر ہماری نظر سے گزری، جو بہت زیادہ نئی تو نہیں لیکن ہمارے حسب حال ضرور ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ سانتافی ، نیومیکسیکو(امریکہ ) کی ’’ ہائپریون پاور جنریشن ‘‘نامی کمپنی نے ایسا ایٹمی گھر تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اپنی جسامت کے اعتبار سے اتنا مختصر ہے کہ اسے صرف 120مربع گز کے عام سے پلاٹ میں بہ آسانی نصب کیاجاسکتا ہے ۔ اتنے اختصار کے باوجود یہ 25میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے اور 20,000ہزار گھروں کو مسلسل سات سے دس سال تک بجلی فراہم سکتا ہے ۔ ایسے ہر بجلی گھر کی لاگت تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالر (موجودہ شرحِ مبادلہ کے حساب سے تقریباً دو ارب روپئے)ہوگی۔

چونکہ یہ مکمل طور پر خود کار و خود مختار ہے، لہٰذا ایک بار تنصیب کے بعد اسے دیکھ بھال اور مرمت کی بھی کم و بیش کو ئی ضرورت نہیں پڑے گی ، اور ساتھ آٹھ سال میں صرف ایک مرتبہ اسے کھولنا پڑے گا تاکہ اس میں تازہ نیوکلیائی انیدھن بھرا جاسکے۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد ہم نے یونہی حساب لگایا کہ اگر ، بالفرضِ محال، ہمارے ملککے سیاستدان نیوکلیائی توانائی سے پرامن استفادے پر سنجیدگی سے توجہ دیں تو دو گھرب (200اَرب)روپئے کی سرمایہ کاری سے اس طرح کے 100ایٹمی بجلی گھر لگائے جاسکتے ہیں اور ان سے لگ بھگ 2,500میگاواٹ بجلی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ، بیس لاکھ گھروں کو روشن رکھا جاسکے گا۔

اگر ایک گھر میں رہنے والوں کی اوسط تعداد صرف پانچ افراد تصور کرلی جائے، تو اس طرح ایک کروڑ افرد کے لیے 7 سال تک بجلی کا بندوبست کیا جاسکتا ہے ۔ مزید باریکی میں اتریں تو پتا چلے گا کہ ایسے کسی منصوبے پر عملدر آمد کے لیے ( جو فی الحال ایک خیالی بات سے بڑھ کر کچھ نہیں ) ، فی گھر کے حساب سے ڈھائی ہزار ڈالر (تقریباً دو لاکھ روپے) لاگت آئے گی ، جو تین ہزار روپے ماہانہ کی شرح سے سرکاری خزانے میں واپس لوٹائی جاسکتی ہے۔

مذکورہ بالا اعداد و شمار کا موازنہ کرائے کے روایتی بجلی گھروں سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر چہ ان پر بھی وہی لاگت آئے گی لیکن اوّل تو وہ صرف پانچ سال کے لیے ہوں گے ، اور دوم ان سے تقریباً 1,600میگاواٹ بجلی ہی بنائی جاسکے گی ، جس کی لاگت وطنِ عزیز کے غریب عوام پر یقینا بجلی بن کر ہی گرے گی ۔

لیکن ہم یہ سب کیوں لکھ رہے ہیں ؟ یقینا ، ہمارے دماغ کی چولیں ڈھیلی ہوگئی ہیں ورنہ سرکاری خزانے پر کم از کم ایک لاکھ روپئے یومیہ (فی وزیر) کاجوجھ بننے کے باوجود کچھ بھی نہ کرنے والے ایک ہزار کے لگ بھگ وفاقی وصوبائی سے خیر کی کوئی امید کیوں رکھتے ؟اگر یہ بات ہماری سرکار بے سرو کار کی سمجھ میں آبھی گئی ، تو سفارتی محاذ پر امریکہ کو یہ باور کرانا بلاشبہ انتہائی مشکل ہوگا کہ ان ایٹمی بجلی گھروں سے صرف بجلی پیدا کی جائے گی ، اور یہ کہ ان سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو نہیں ہوگا ۔ خیر! جانے دیجئے ہمارے لکھنے یا نہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لہٰذا خواہ مخواہ کے لیے دل جانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ آپ تو بس ہماری اس تحریر کو ایک دلچسپ خبر سمجھ کر پڑھئے اور اپنا’’ دل پشوری ‘‘ کیجئے …کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔

نیوکلیائی بیٹری سیل

ہائپر یون کے مطابق ، اس ایٹمی بجلی گھر کو ’’نیوکلیائی بیٹری سیل ‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ یہ مروجہ ایٹمی بجلی گھروں سے خاصا مختلف ہے ۔ سب سے پہلا فرق تو جسامت کا ہے ۔ عام ایٹمی بجلی گھروں کے برعکس ،یہ تقریباً دس فٹ چوڑا ہے جبکہ اس کی لمبائی بھی صرف پندرہ فٹ ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ اسے نصب کرنے کے لیے زمین کے اندر ، مناسب گہرائی میں دفن کیا جائے گا ۔ ساتھ سے دس سال کے دوران جب اس کا نیوکلیائی ایندھن ختم ہوجائے گا تو اسے زمین سے نکال کر ایک بار پھر واپس کمپنی بھجوادیا جائے گا جو ایک بار پھر اسے ’’ ری چارج‘‘ کر کے ( یعنی تازہ نیوکلیائی ایندھن سے لیس کر کے ) متعلقہ مقام پر واپس بھجوادے گی۔

ہائپریون کے مختصر قامت ایٹمی بجلی گھروں کے بارے میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹیوآفیسر ، جان ڈیل کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کم سے کم خرچ پر (نیو کلیائی ذرائع سے ) بجلی بنانا چاہتے ہیں ، تاکہ دنیا کے غریب ممالک بھی اس اہم متبادل ذریعہ توانائی سے فیضیاب ہوسکیں ۔

البتہ ، اس ضمن میں ایک وضاحت ضروری ہے ۔ مختصر اور کم خرچ ایٹمی بجلی گھروں کے میدان میں ہائپریون سب سے پہلی یا واحد کمپنی ہرگز نہیں ، بلکہ دنیا بھر میں کئی اور تحقیقی و تجارتی ادارے بھی ایسے ہی ایٹمی بجلی گھر تیار کرنے کی جستجو میں ہیں ۔ سائنسی تحقیق سے ناواقف لوگ (یا وہ افراد جنہیں اس سے سطحی واقفیت ہے )اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیق پر سرمایہ کرکاری کرنا بے سود ہے کیونکہ اوّل تو اس سے کوئی خاطر خواہ مالی فوائد نہیں ملتے ، اور اگر ملتے بھی ہیں تو ان کے لیے ایک طویل عرصے تک صبر و تحمل سے انتظار کرنا پڑتا ہے ۔

معذرت کے ساتھ ، ہم اس دلیل کو آدھے سچ سے زیادہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، کیونکہ یہ بات درست ہے کہ تحقیق کے مالی فوائد سے مستفید ہونے میں طویل مدتی صبر تحمل ضروردرکار ہوتا ہے،لیکن ایک بار جب یہ فوائد ملنا شروع ہوتے ہیں اکثر اوقات ہماری توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوتے ہیں ۔ ہائپر یون کے جس مختصر ایٹمی بجلی گھر کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، وہ بھی دراصل تحقیقی ایٹمی ری ایکٹروں کی ایک قسم میں ترمیم کے بعد تیار گیا گیا ہے جسے ’’ ٹریگا‘‘ (TRIGA)کہا جاتا ہے ۔ یہ ایسے تحقیقی ایٹمی ری ایکٹر ہیں جنہیں بہت کم دیکھ بھال اور مرمت کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان کے مختلف ڈیزائن کئی امریکی جامعات میں نصب ہیں جن سے وہاں کے طالب علم مستفید ہو رہے ہیں۔ ٹریگاری ایکٹر کم و بیش تمام اقسام میں ایک قدر مشترکہ ہوتی ہے ، ان میں اضافی حرارت کوری ایکٹر کے قلب (کور) سے نکال باہر کرنے ، اور زائد نیوٹرون جذب کر کے وہاں ہونے والے عملِ انشقاق( فشن ری ایکشن) کو قابو میں رکھنے کے لیے کسی دھات کو مائع حالت میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یعنی ایک پنتھ، دوجاج ۔ ری ایکٹر کے قلب کو ضروری حد تک ٹھنڈا رکھنے والا مادہ ’’ سرد گر ‘‘ (Coolant)جبکہ زائد نیوٹرون جذب کرنے والا ومادہ ’’ اعتدال‘‘ (ماڈریٹر ) کہلاتا ہے ۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ روایتی قسم کے ایٹمی بجلی گھروں میں حرارت کے اخراج اور اضافی الیکڑون جذب کرنے کے لیے الگ الگ مادے استعمال کئے جاتے ہیں، جبکہ ٹریگا میں یہ جدا گانہ کام ایک ہی مادہ کرتا ہے مروجہ ایٹمی گھروں کے مقابلے میں کم تر جسامت اور استعمال میں سہولت کے باوجود ٹریگاری ایکٹر اتنے بڑے ضرور ہوتے ہیں کہ اب بھی ان کی تنصیب ہر کسی ادارے کے بس کی بات نہیں ۔

بجلی بنائیں گے ہم

برسوں سے یہ کوششیں جاری ہیں کہ ان تحقیقی ری ایکٹروں کو مزید مختصر کر کے بجلی بنانے کی غرض سے استعمال کر لیا جائے …اور حالیہ برسوں میں کوششیں بار آور ثابت بھی نے لگی ہیں ۔اس کی ایک مثال ’’ ریپڈایل ‘‘ (Rapid-L)نامی مختصر ایٹمی بجلی گھر ہے جس پر ’’ توشیبا ‘‘ میں کام ہورہا ہے ۔ (جی ہاں ! یہ وہی توشیبا کمپنی ہے جس کے تیار کردہ ٹی وی اور دوسری برقی گھریلو مصنوعات ہمارے ہاں استعمال ہوتی ہیں ۔) ریپڈاَیل میں سردگر (کولنٹ) اور اعتدال گر (ماڈریٹر ) کے طور پر لیتھیم 6کا استعمال ہوتا ہے جو سب سے ہلکے دھاتی عنصر لیتھیم کے قیام پذیر ہم جائوں (Isotopes)میں سے ایک ہے۔

ریپڈایل ہی کی طرز پر امریکی محکمہ توانائی (DoE)کے تحت ’’اسٹار ‘‘ (SSTAR)یعنی ’’اسمال، سِلیڈ، ٹرانسپور ٹیبل آٹو نومس ری ایکٹر ‘‘ تیار کیا جاچکا ہے جو اصولی طور پر ویسا ہی ہے جیسا توشیبا کا ریپِڈرائیڈ (Lead Hydride) بطور سردگر اورا عتدال گر استعمال کیا گیا ہے ۔ ریپڈیل اور اسٹار، دونوں میں کم افزو دہ (Low-\Enriched)یورنیم پر مبنی نیوکلیائی ایندھن استعمال کیا جاتا ہے ۔ان دونوں کے مقابلے میں بہتر ڈیزائن وہ ہے جو 2002ء میں امریکہ محکمہ توانائی ہی کی ایک اور تجربہ گاہ ، لاس الاموس نیشنل لبیارٹری (LANL)کے سائنسداں ، اوٹِس پیٹرسن نے تیار کیا تھا ، اور جسے 2003ء میں دنیا کی بہترین اختراعات میں سے ایک شمار کیا گیا تھا۔

اگرچہ اس ری ایکٹر کا ڈیزائن بھی ’’ ٹریگا ‘‘ ہی سے ماخوذ ہے لیکن یہ ریپڈیال اور اسٹار ، دونوں سے ایک قدم آگے ہے ، اس میں لیڈ ہائیڈرائیڈ کی جگہ مائع یورینیم ہائیڈرائیڈ استعمال کیا گیا ہے جو بیگ وقت تین ذمہ داریاں انجام دیتا ے ،سرد گر اور اعتدال گر ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ ری ایکٹر کے لیے ایندھن کام کام بھی کرتا ہے ۔پیٹر سن کے وضع کردہ اس ایٹمی بجلی گھر کا ایک اور اضافی فائدہ یہ ہے کہ اس میں کوئی متحرک پرزہ (Moving Part)نہیں ۔ لہٰذا استعمال کے دوران اسے مرمت اور دیکھ بھال کی بھی ضرورت نہیںپڑتی۔ علاوہ ازیں ، اس میں موجودیورینیم ہائیڈرائیڈ (UH3) کی شکل میں ہوتی ہے ، اتنے کم درجے کی افزودہ ہوتی ہے کہ اس سے ایٹمی ہتھیار بنانایا اسے عکسری مقصد میں استعمال کرنا اگر نا ممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے ۔

یہ ری ایکٹر بطور خاص بیرون ملک تعینات ، امریکی افواج کے لیے تیار کیا گیا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ عراق اور افغانستان جیسے محاذوں کا موسم بہت شدید ہے ، جس سے محفوظ رہنے کے لیے وہاں تعینات امریکی فوجیوں کو خصوصی ایئر کنڈیشنڈ /سینٹر لی ہینڈفیموں کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے ، جسے پورا کرنے کے لیے روایتی ایندھن کی مسلسل فراہمی بھی ایک کل وقتی درد سری ہے ۔ اپنی مختصر جسامت اور زیر زمین گہرائی میں دفن ہونے کی وجہ سے ایک طرف تو ایسے کسی ایٹمی ری ایکٹر کی تنصیب خاصی آسان ہوگی، تو دوسری جانب یہ ’’دہشت گردوں ‘‘ کے حملوں سے محفوظ رہتے ہوئے سال ہا سال تک بجلی بناتار ہے گا۔

لیکن ٹیکنالوجی کی بیشتر ایجادات کی طرح ، اس ایٹمی بجلی گھر سے بھی صرف عکسری مقاصد ہی پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ پرامن مقاصد کا حصول بھی ممکن نظر آتا ہے ۔ ارے بھئی ظاہر ہے کہ بجلی صرف کسی خاص ملک کے فوجیوں ہی کی ضرورت تو نہیں ، بلکہ آج یہ ہر ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائپریون پاور جنریشن کا قیام عمل میں لایا گیا، جس نے اس ری یکٹری کی ٹیکنالوجی، ایل اے این ایل سے لائسنس پر حاصل کرلی۔ دریں اثناء ایل اے این ایل میں اوٹِس پیٹر سن کی مدت ملازمت بھی پوری ہوگئی ۔ اور انہوں نے ہائپر یون میں چیف سائنٹسٹ کا عہدہ سنبھال لیا۔

ہائپریون میں رہتے ہوئے انہوں نے اس ری ایکٹر کے ڈیزائن کو مزید بہتر بناتے ہوئے اس قابل کیا کہ یہ تجارتی پیمانے پر تیار کیا جاسکے اور ہر طرح کے حالات میں اسے بہترین تحفظ بھی حاصل رہے۔ مثلا یہ کہ اس کا بیرونی خول نہایت مضبوط بنایا گیا ہے جسے آسانی سے توڑا یا کھولا نہیں جاسکتا ، تیاری کے بعد اسے سر بند (Sealed)حالت میں مطلوبہ مقام تک پہنچایا جائے گا اور انیدھن ختم ہوجانے کے بعد اسی حالت میں واپس ادراے کے مرکز میں (ری چارج کرنے کے لیے ) پہنچادیا جائے گا۔

اس کا یورینیم ہائیڈرائیڈ ایندھن (جو بیک وقت سرد گرد اور اعتدال گر بھی ہے ) ری ایکٹر کے قلب کا درجہ حرارت ایک مخصوص حد سے زیادہ ہونے نہیں دے گا ، اور اگر خدانخواستہ ایسا کبھی ہونے بھی لگا تو ۔ہائپریون کے دعوے کے مطابق ۔ ہائیڈروجن کے ایٹم کیمیائی طور پر یورینیم سے الگ ہوجائیں گے اور نیوکلیائی تعامل روک کر اس کا درجہ حرارت بھی بڑھنے نہیں دیں گے۔

اول تو اس میں موجود، کم افرمودہ یورینیم کسی بھی طرح سے دہشت گردو ں کے کام کی نہیں، حرارت اتنا زیادہ ہے کہ انہیں ایسا کرنے میں شدید ترین دشورای کا سامنا ہوگا ۔ سردست امریکی محکمہ توانائی میں اس ری ایکٹر کی قدر پیمائی (Evaluation)جاری اور، اگر سب کچھ صحیح وقت پر مکمل ہوگیا تو، یہ نیوکلیائی بیٹری سیل 2013ء تک تجارتی پیمانے پر فروخت کیلئے دنیا بھر میں دستیاب ہوگا ۔ آخر میں ہم صرف اتنا مزید کہنا چاہیں گے کہ سائنس اپنا کام کر دیا ہے ۔ اب یہ اہل سیاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کا تقاضا سمجھیں اور توانائی کے پائید ار حل پر سنجیدہ غور رکریں ۔

Demands Of Tanawal

 اہلیان تناول سے کیے گئے وعدے کب پورے ہونگے

علاقہ تناول کے عوام سے آج تک جھوٹ بولا گیا۔ ان کو میگا پراجیکٹس کے سہانے خواب دیکھائے  گئے اور اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی گئی۔ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنے مفادات حاصل کیے گئے۔ تناول ایئر پورٹ، ضلع تناول، تحصیل تناول، تناول ڈویلپمنٹ اتھارٹی، گرلز ڈگری کالج لساں نواب اور تناول کو ٹورازم زون میں شامل کرنے سمیت دیگر بڑے خواب دیکھائے گئے۔



 ان پراجیکٹس کے نام پر ووٹ لینے والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ابھی تک ان سے اتنا ہوا ہے کہ اپنے من پسند احباب کے بچوں کو کلاس فور ہی بھرتی کروا پائے ہیں اور وہ بھی ناجانے کیسے کیسے کر کے کیے ہیں۔ 


دیگر وعدوں کی بات پھر کبھی کریں گے۔ ابھی گزشتہ بلدیاتی الیکشن پر بات کرتے ہیں۔ تحصیل چیئرمین کی نشست کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی  حکومت نے ایڑی چوٹی کا ذور لگایا ۔عمران خان نے ٹھاکرہ اسٹیڈیم میں جلسہ بھی کیا۔ اب اس جلسے سے پہلے کی صورتحال پر بات کرتے ہیں۔ سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی، ایم پی اے بابر سلیم سواتی ، زاہد چن ذیب اور دیگر رہنماؤں نے تحصیل چیئرمین مانسہرہ کی نشست کے لیے تناول سے آزاد امیدوار وحید انجم کو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کمال سلیم سواتی کے حق میں دستبردار کرنے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ 


مختلف میٹینگز ہوئی پھر وحید انجم نے تین مطالبات کی منظوری کے بعد لساں نواب میں  جلسہ عام میں کمال سلیم سواتی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا۔ اس جلسہ میں اعظم خان سواتی، باب سلیم، زاہد چن ذیب، کمال سلیم اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ 


اعظم خان سواتی نے وہاں اعلان کیا کہ یہ مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندیوں کے باعث ابھی تحصیل کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکتا اور الیکشن کے بعد یہ کام ہوجائے گا۔


ٹھاکرہ اسٹیڈیم مانسہرہ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے جلسہ میں  اعظم خام سواتی نے اپنے خطاب میں تحصیل تناول کا اعلان کیا۔ انکے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی تحصیل تناول کا اعلان کیا اور دیگر دو مطالبات پر بھی کام کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اسکے بعد اعظم خان سواتی کی قیادت میں ایک وفد نے وزیراعلیٰ سے اس سلسلے ملاقات بھی کی۔


اسکے  بعد مئی میں تحصیل تناول کے قیام کے حوالے سے محکمہ ریونیو نے ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کو فزیبلٹی رپورٹ کے لیے لیٹر بھی لکھا۔ اسکے بعد سے خاموشی چھا گئی۔


پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کی یقین دہانی کے بعد بھی اب تک کچھ نا ہوسکا۔ اہلیان تناول میں اس حوالے سے سخت بےچینی پائی جارہی ہے۔ الیکشن میں تناول سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو اچھے خاصے ووٹ ملے ہیں۔مگر اسکے بعد ان لوگوں نے پلٹ کر بھی نادیکھا جو تناول کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے۔


اہلیان تناول اب یہ سوچ رہے ہیں کہ ان سے جو بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے کیا وہ بھی ماضی کی طرح ایک بھیانک خواب بن جائیں گے یا کوئی ایک سچ بھی ثابت ہوگا۔ آج تناول کا ہر فرد یہی سوال کرتا نظر آتا ہے کہ ہم سے کیے گئے وعدے آخر کب پورے ہونگے؟اب نوبت یہ آگئ ہے کہ وحید انجم کی طرف سے میڈیا میں بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں تحصیل تناول کا نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے۔


اگر تحصیل کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تو یونین کونسل پڑھنہ، پھلڑہ، ساون میرا اور لساں نواب کے عوام کو بہت فائدہ ہوگا۔اسکے علاوہ ضلع ہری پور کی متعدد وی سیز کا بھی انحصار لساں نواب پر ہے۔


اگر تین یونین کونسلز پر مشتمل تحصیل دربند قائم ہوسکتی ہے تو یہاں چار بڑی یونین کونسلز پر تحصیل تناول کیوں نہیں بنائی جاسکتی۔مگر افسوس تناول کے نامی گرامی لیڈروں نے کبھی عوام کا سوچا ہی نہیں۔اگر تحصیل تناول کا قیام ہوجاتا ہے تو اس سے بہت بڑی آبادی کو فائدہ ہوگا۔ 


اہلیان تناول آج بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے ماضی جیسے نہیں ہونگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت کہاں تک اپنے وعدوں کا پاس رکھ پائے گی۔

کیوبک فی سیکنڈ کیا ہوتا ہے

 کیوبک فٹ فی سیکنڈ (آسان زبان میں)

یعنی ایک سیکنڈ میں کتنے مکعب فٹ پانی گزرا۔

کیوبک فٹ کا مطلب اتنا پانی جو ایک فٹ لمبی ایک فٹ چوڑی اور ایک فٹ گہری جگہ کو مکمل بھردے

ایک کیوبک فٹ میں لیٹر کے حساب سے کوئی سوا اٹھائیس لیٹر سے کچھ زیادہ مقدار ہوتی ہے۔


کیوسک کیا ہے؟ (سائنسی انداز میں)

کیوسک کسی بھی مائع یا سیال کے بہاؤ کی مقدار ماپنے کا پیمانہ ہے۔

 یہ دراصل CUSEC کی عربی زده شکل ہے۔ CUSEC خود Cubic Feet Per Second کا مخفف ہے، یعنی مکعب فٹ فی سیکنڈ۔


(28.317 لیٹر فی سکینڈ) یعنی اگر ایک مقام سے 28.317 لیٹر پانی فی سیکنڈ میں گزرے تو وہ پانی کی یہ مقدار ایک کیوسک فٹ ہو گی۔


ایک ہزار کیوسک فٹ کا مطلب کسی جگہ ایک سکینڈ میں 28,317 لیٹر پانی ایک سیکنڈ میں گزر رہا ہے۔ 

پانچ لاکھ کیوسک ریلے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہاں سے ایک سیکنڈمیں ایک کروڑ 41 لاکھ 58 ہزار 423 لٹر پانی گزرے گاـ

راحیل عباسی کا کالم

 حالات حاضرہ میں ہمارے رویّوں کی عکاسی کرتی میری نئی مختصر کہانی  

                                "بے حِس امدا د"


                 راحیل انار عباسی


فرید صاحب جھکی کمر کے ساتھ اسلم صاحب کی دوکان میں داخل ہوئے۔۔۔

آئیے آئیے چچا فرید کیسے ہیں آپ ۔۔اسلم صاحب نے ہاتھ ملاتے ہوئے چچا فرید کا استقبال کیا۔۔۔ارے بیٹا کیا ٹھیک ہوں پوار ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔۔۔بستیوں کی بستیاں تباہ ہوگئی ہیں۔۔اللہ ہی رحم کرے بس۔۔۔

ارے چچا یہ تو ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا ہے، اللہ کی نافرمانی کیوجہ سے ہی تو اللہ کے عذاب نے آن پکڑا انہیں۔۔۔۔اسلم صاحب سینہ تان کر بولے۔۔

بس بیٹا دعا کرو اللہ رحم کرے ان سب پر۔۔آمین اسلم صاحب نے آہستہ آواز میں کہا۔۔

خیر چچا آپ بتائیں کیسے آنا ہوا۔

بیٹا وہ دو کلو پیاز تو دے دو ۔۔چچا بولے۔۔

پیاز کا تو نہ ہی پوچھیں چچا پورے تین سو روپیہ کلو خود گاڑی والے سے آج ہی اتارا۔۔۔اسلم صاحب نے کہا۔۔۔بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔جی جی چچا صحیح کہہ رہا۔۔۔

چلو بیٹا ایک کلو ہی دے دو۔۔۔چچا بولے

اسلم صاحب دوکان کے اندر والے حصے گئے ، ارے او ناصر ذرا پیچھے گودام سے جاکر وہ جو بوریاں ہم نے دو ہفتے پہلے اتاری تھیں ان سے پیاز تو لے آؤ ۔۔۔اسلم صاحب نے دوکان پر کام کرنے والے ناصر کو حکم دیا۔۔۔

صاحب وہ تو ہم نے 80 روپیے کلو خریدا ہو ا ہے۔۔۔ناصر بولا۔۔۔۔

ارے چپ کرو ۔۔لوگوں کو کیا پتا ہم نے اتنے کا اتارا۔۔اور دوسرا یہی تو دن ہیں کمانے کے اور تمہیں پتا بھی ہے نا سیلاب متاثرین کی امداد بھی کرنی ہے تو وہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔۔۔اور یوں اسلم صاحب نے 320 کلو پیاز چچا فرید کو مسکراتے ہوئے پکڑا دیا۔


راحیل انار عباسی

Okora Khatak JUI S

 آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی دیگر ادارے اورممالک پاکستانی قرضے فوری معاف کریں (مولانا حامد الحق حقانی)

پوری پاکستانی قوم کو ہمت ، عزم اور نئے جوش و جذبے سے پاکستان کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے زبردست جدوجہد کرنی پڑے گی۔ (مولانا حامد الحق حقانی)


٢٩۔اگست (اکوڑہ خٹک)جمعیت علماء اسلام (س )کے سربراہ ،دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جامعہ حقانیہ کے وائس چانسلر مولانا حامد الحق حقانی نے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم کو ہمت ، عزم اور نئے جوش و جذبے سے پاکستان کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے زبردست جدوجہد کرنی پڑے گی۔ حالیہ سیلاب سے پاکستان کئی برس پیچھے چلا گیا ہے،اربوں کھربوں کی مالیت کا نقصان حالیہ سیلاب پاکستان کو دے گیا ہے۔قوم پہلے سے پریشانیوں اور مہنگائی اور بیروزگاری میں مبتلا تھی اب یہ مزید ناقابل قبول ہوگا کہ پاکستانی قومی قیادت، لیڈرز ، سیاستدان ،حکمران اور افسر شاہی او رملک کے خوشحال امیر طبقات خود شاہ خرچیاں کریں اور قوم کو بدحالی میں تنہا چھوڑ دیں ۔مولانا حامد الحق حقانی نے کہاکہ سیلاب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انتباہ تھا کہ ملک و قوم کے بڑے چھوٹے افراد رجوع الی اللہ کرکے اپنے تمام تراختلافات کو بھلا کر پاکستان کو ازسرنو تعمیر وترقی کے راستے پر لے جائیں ۔اس وقت وفاقی ، صوبائی حکومتیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں مل کر پاکستان کے مستقبل کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرے تاکہ آئندہ ایسی بڑی آفات سے بچاؤ کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ مولانا حامد الحق حقانی نے کہاکہ چاروں صوبوں بلکہ پورے پاکستان کو اس وقت آفت زدہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا سے بھی بات کی جاسکتی ہے کہ پاکستان قدرتی آفت کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کو ہے،ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ بڑے بڑے مالیاتی اداروں کو پرانے قرضے واپس کرسکیںبلکہ دنیا کو اس وقت پاکستان کے آفت زدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی اورانسانوں کی خوشحالی کیلئے اپنے سیاسی مقاصد سے بالاتر ہوکر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ مولانا حامد الحق حقانی نے کہاکہ ہماری جماعت ، ہمارے خاندان اور ہمارے بڑے دینی مرکز جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے 2010کے سیلاب زدگان کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے تھے جن کی نگرانی میرے والد شہید قائد جمعیت حضرت مولانا سمیع الحق صاحب نے خود کی تھی  اور دو ڈھائی مہینے سیلاب زدگان کو اپنے ادارہ میں سپورٹ کرتے رہے  اب بھی میں نے کئی اضلاع اوردرجنوں دیہاتوںکا دورہ کیا جہاں پہ لوگ ملک بھر کے مخیر افراد کی جانب سے تعاون کے بھی منتظر ہیں،انتظامیہ جگہ جگہ کام کررہی ہے لیکن یہ بہت ہی کم ہے ،ہماری قوم کے نوجوانوں کو رضاکارانہ طور پر خود خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا باعث ثواب اور باعث سعادت ہوگا۔ ملک بھر کے کئی جوان اور بوڑھے لقمہ اجل بن چکے ہیں ان کے لئے حکومت بڑے پیکجز کا اعلان کرے۔مولانا حامد الحق حقانی نے کہاکہ غریب زمینداروں کی کھیتیاں اور جانور ،مکانات ملیا میٹ ہوچکے ہیں ،ہماری جماعت جے یوآئی ایس کے ورکرز جگہ جگہ ان تک پہنچ رہے ہیںاور ان کے ساتھ ہر قسم کی مدد کرنے میں پیش پیش ہیں۔خود ہمارے ادارے میں پورے ایک ہفتہ سے ختم قرآن اور ختم بخاری شریف ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے مسلسل کئے جارہے ہیں۔ہمارے رضاکار پورے ڈسٹرکٹ میں علماء طلبا نوجوان کام کررہے ہیں۔ میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے ہیں،ورکرز کے تعاون سے جگہ جگہ فوڈ پیکجز بھی پہنچائیں جائیں گے،پوری قوم سے میں دعاؤں اور توبہ کی اپیل کرتا ہوں کہ رجوع الی اللہ سے یہ مسائل اللہ رب العزت آہستہ آہستہ حل فرمائیں گے ان شاء اللہ

Chitral Flood Situation

 تباہ کن سیلاب کی وجہ سے وادی گولین کا زمینی رابطہ منقطع۔ ہزاروں لوگ وادی کے اندر محصور۔ متاثرہ لوگوں کا ریسکیو کرنے کیلئے دہائی۔

چترال (گل حماد فاروقی) چترال کا خوبصورت وادی اور سیاحتی مقام  گولین کا راستہ   پل ٹوٹنے کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے  سے بند ہے جس کی وجہ سے وادی میں محصور لوگوں کے پاس آشیائے خوردونوش ی شدید قلعت پیدا ہوئی ہے۔ وادی میں محصور ہزاروں لوگ امداد کے منتظر۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کی جان و  مال کو شدید حطرہ ہے  اور وہ اب مزید یہاں نہیں رہنا چاہتے۔ 

سیاحتی مقام وادی گولین حالیہ بارشوں اور مسلسل سیلاب کہ وجہ سے  بری طرح متاثر ہوا ہے۔  یہاں 15 گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 40 مکانات جو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے بیرموغ، استور اور جنگل گاؤں کا راستہ پچھلے 15 دنوں سے کٹ چکا ہے۔ جنگل سے آگے پہاڑی چراگاہوں پر گوجر برادری کے 100 گھرانے بھی متاثر ہوئے ہیں  مگر ابھی تک ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت رسی اور لکڑیوں سے عارضی طور پر ایک جھولا پل بنا یا ہوا ہے مگر یہ نہایت حطرناک بھی ہے۔ متاثرہ لوگ انتہائی ذہنی دباؤ اور خوف کا شکار ہیں  اور پنا سامان کھلے آسمان تلے رکھ کر  خود بھی کھلے میدان میں رات گزرتے ہیں۔ متاثرہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی جان و مال حطرے میں ہے اور اب وہ مزید یہاں رہنا نہیں چاہتے۔ 

علاقے کے معمر حضرات  نے بتایا کہ یہاں 1930, 1946, 1977 میں بھی سیلاب آیا تھا مگر وہ اپنے راستے سے گزر گیا۔ آج کل سیلاب آبادی کا رح کرتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محکمہ واپڈا یہاں 107 میگا واٹ  گولین پن بجلی گھر  کیلئے اس وادی میں پانی کا ڈیم یعنی ٹینک بنایا ہے اس کیلئے ٹھیکدار نے نالہ سے ہٹ کر آبادی کی جانب زمین کو ایکسیویٹر مشین سے اوپر نیچے کرکے نظام کو بدل ڈالا اور اس کے بعد اب مسلسل یہاں سیلاب آتا ہے۔ 

بار بار سیلابوں کی وجہ سے علاقے کے خواتین اور بچے بھی  نہایت ڈرے ہوئے ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں کسی محفوظ جگہہ منتقل کیا جائے  کیونکہ اب ان کی جان و مال یہاں محفوظ نہیں ہیں۔

ہمارے نمائندے نے اس وادی کا دورہ کیا اور انتہائی حطرناک رسیوں کے پل پر سے گزر کر آگے سیلابی پانی میں جانا پڑا  وہاں ایک مسجد کے نیچے راستہ صاف تھا مگر جب واپس آتو تو مسجد کے اندر سے سیلاب کا پانی بہہ رہا تھا اور چند ہی لمحوں میں مسجد شہید ہوا۔ راستوں کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ٹیم سیلابی ریلے کے اندر پھنس گئے جنہیں دیکھ کر آس پاس کھڑی خواتین نے رونا شروع کیا اور ان کیلئے دعائیں کی    اور سیلابی ریلے کے اندر سے بھاگ کر جان بچانا پڑا۔ اس وادی میں جن لوگوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان کے خواتین، بچوں اور بوڑھوں نے ایک مقامی قبرستان میں پناہ لیا ہے جو قدرے اونچائی پر ہے۔ ان خواتین نے بتایا کہ یہاں چیونٹی،  بچھوں، سانپ اور دیگر کیڑے مکوڑوں سے ان کو حطرہ ہے۔ 

اس وادی میں سیلاب کی وجہ سے دو مساجد بھی شہید ہوئے۔ مسجد کے پیش امام نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اب تو باجماعت نماز ادا کرنے کیلئے بھی جگہہ نہیں بچی۔  راستے اور پلوں کی ٹوٹنے  کی وجہ سے  یہاں ہر قسم کا ٹریفک  مکمل طور پر بند ہے۔ لوگ کندھوں پر  خوراک کا سامان اور پینے کا پانی  اٹھاکر کئی کلومیٹر لے جانے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر ان کا مواصلاتی نظام  اسی طرح منقطع رہا تو  خدشہ ہے کہ ان کے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔اب بھی یہ لوگ نہایت کسمپرسی  کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جن لوگوں کے گھر سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا ان کے اندر اب بھی سامان ملبے تلے پھنسا ہوا ہے مگر ان کو نکال نہیں سکتے۔ ان بے گھر لوگوں نے اونچی جگہہ پر اپنا سامان رکھا ہوا ہے او ر اکثر ان امدادی کیمپوں میں ایسے بچے بھی دیکھے گئے جو مکئی کی سیٹے کھا کر اس پر گزارہ کرتے تھے۔ 

متاثرہ لوگ حکومتی اداروں  سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ ان کو کسی محفوظ جگہہ میں منتقل کرکے ان کے زمین کے برابر ان کو زمین دیا جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ فوری طور پر مالی مدد کی جائے  تاکہ

 یہ لوگ سردیاں آنے سے پہلے  اپنے تباہ شدہ مکانات  کو دوبارہ تعمیر کر سکے اور ان کے راستے بھی بحال کئے جائے  تاکہ یہ لوگ بھوک و پیاس کا شکار نہ ہو۔امدادی کیمپ میں ایک خاتون بیٹھی تھی جن کا آنکھ سیلاب کے دوران دوڑتی ہوئی لکڑی سے ٹکرا کر زحمی ہوئی تھی مگر وہ راستہ نہ ہونے کی وجہ ہسپتال نہیں جاسکتی۔ کئی دل کے مریض بھی ایسے ہیں جن کے پاس ادویات حتم ہیں اور مریض ہسپتالوں میں جانے سے قاصر ہیں کیونکہ زمینی رابطہ منقطع ہے۔ 

واضح رہے کہ وادی گولین  میں حالیہ بارشوں اور مسلسل سیلاب کی وجہ سے وادی کا سڑک، تین پل بہہ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کا ملک کے دیگر حصوں بلکہ چترال سے بھی زمینی رابطہ منقطع ہے اور اکثر لوگ کئی کلومیٹر پیدل آکر کھانے پینے کی سامان اور پینے کا پانی  لے جاتے ہوئے دیکھا گیا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے پینے اور آبپاشی دونوں قسم کے پائپ لائن بھی تباہ ہوا ہے۔

DIG Hazara Visit Flood Relife Fund



ڈی آئی جی ہزارہ کا پولیس، میڈیاو ٹریڈرز کے تعاون سے قائم متاثرین سیلاب کے امدادی کیمپ کا دورہ
ہمارا یہ مشن تب تک ادھورا ہے جب تک ہم اس امدادی رقم کو مستحقین تک پہنچا نہ دیں، میرویس نیاز
میڈیانمائندگان، امن کمیٹی، ٹریڈ یونین کا مشکور ہوں جو ہر پلیٹ فارم پر پولیس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں،  ڈی آئی جی ہزارہ ریجن
ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم اس کیمپ کے زریعے ایک کروڑ سے زائد کی رقم جمع کرکے متاثرین میں تقسیم کریں، میڈیا نمائندگان و تاجر رہنما


ایبٹ آباد (پریس ریلیز) ملک میں سیلابی صورتحال میں سیلاب زدگان کیساتھ مالی تعاون کیلئے ایبٹ آباد پولیس، تاجر برادری، میڈیا نمائندگان اور دیگر کی جانب سے لگائے گئے امدادی کیمپ میں ڈی آئی جی ہزارہ ریجن میرویس نیاز نے شرکت کی۔ تفصیلات کے مطابق ایبٹ آباد پولیس کی جانب سے صدر بازار ایبٹ آباد میں سیلاب زدگان اور ملکی صورتحال کے پیش نظر متاثرین سیلاب کیلئے امداری کیمپ لگایا گیا جس میں عام عوام، سرکاری ملازمین، میڈیا نمائندگان، تاجر برادری، سیاست دانوں اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے بھرپور مالی تعاون کیا جو کہ سیلاب متاثرین تک پہنچایا جائے گا۔ڈی آئی جی ہزارہ ریجن میرویس نیاز اور ڈی پی او ایبٹ آباد سجاد خان نے اس امداری کیمپ کا دورہ کیا وہاں پر آئے ہوئے عام عوام، پولیس جوانوں، تاجروں، میڈیا نمائندگان سے ملاقات کی اور ان کے اس کار خیر میں محنت کو سراہا۔ڈی آئی جی ہزارہ نے اس موقع پر تمام شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیانمائندگان، امن کمیٹی، ٹریڈ یونین اور دیگر اشخاص جو کہ ہر موقع پر پولیس کی معاونت میں لگے رہتے ہیں ان کے انتہائی مشکور ہیں۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ اس صدر بازار سے گزرنے والی عام عوام اور خاص کر کے خواتین بھی اس امدادی کیمپ میں امداد دے رہے ہیں۔ تمام لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اس امداد میں حصہ لیں انہوں نے مزید کہا کہ امداد اکٹھی کرنا شاہد اتنا مشکل کام یا بڑی بات نہیں ہے اس امداد کو مستحق لوگوں تک پہنچانا ایک مشکل کام ہے لیکن ہمارا مشن تب تک ادھورا ہے جب تک ہم اس امدادی رقم کو مستحقین تک پہنچا نہ دیں کیونکہ ہمارے اپنے علاقے اپر کوہستان، لوہر کوہستان، ماہنور ویلی دیگر کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر لوگ حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے ہیں ان تک اس امداد کو پہنچائیں گے اور میری کوشش یہ بھی ہے ہمارے دوست احباب دیگر اضلاع اور دیگر صوبوں سے بھی اس امدادی کیمپ میں امدادی اشیاء دیں اور ہم اس امداد کو اسی کیمپ میں لے کر آئیں گے اور متاثرین تک پہنچائیں گے۔ڈی آئی جی ہزارہ نے خود بھی25ہزار روپے کی نقد رقم امدادی کیمپ میں جمع کروائی۔اس موقع پر تاجر رہنما نعیم اعوان نے اپنی ٹیم کی جانب سے ساڑھے تین لاکھ کی رقم امدادی کیمپ میں جمع کرنے کیلئے ڈی آئی جی ہزارہ کے سپرد کی، صدر پریس کلب سردار نوید عالم نے بھی پریس کلب ایبٹ آباد کی جانب سے خطیر رقم امدادی کیمپ میں دینے کا اعلان کیا۔اسکے علاوہ صدر پریس کلب سردار نوید عالم، صدر AUJ راجہ ہارون، جنرل سیکرٹری پریس کلب سردار شفیق، صدر آل ٹریڈرز ثاقب خان جدون،تاجر رہنما نعیم اعوان، سردار شاہنواز نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب زدگان ہمارے بھائی ہے متاثرین کے تعاون کیلئے ہم ہر ممکنہ کوشش کریں گے اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم اس کیمپ کے زریعے ایک کروڑ سے زائد کی رقم جمع کرکے متاثرین میں تقسیم کریں۔ ہم اس کیمپ کی توسط سے ضلع ایبٹ آبا د کے تمام مخیر حضرات سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرین سیلاب کی مدد کرنے میں اس کیمپ میں مالی تعاون اور اشیاء ضروریہ جمع کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

Science

 سائنس کے چند اہم سوالات جو آج تک لاجواب ہیں


سائنس بڑا ہی زبردست مضمون ہے۔ کم از کم ہماری ناقص رائے تو یہی ہے ، آپ کواختلاف یا اتفاق کرنے کا پورا حق ہے۔ ہمارے نزدیک سائنس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ ہمیں سوال کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے…اور تحقیق وتفتیش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافِ رائے کوخندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے قابل بھی بناتی ہے۔


(e)کیا قوانینِ طبیعات متحد کئے جاسکتے ہیں؟

’’اے ہئے! قوانینِ طبیعات نہ ہوئے، چارسوکنیں ہوگئیں نگوڑماریاں کہ ایک چھت تلے نہیں رہ سکتیں۔ ‘‘ ہمیں یقین ہے کہ اگر کسی سائنسداں کودلّی کی ’’زنانہ‘‘ کرخنداری زبان میں طبیعات کی موجود صورتِ حال پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ کچھ اسی طرح کا ہوگا جیسے کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ ابتداء سے لے کر آج تک ،طبیعات کے ذیل میں ہونے والی اہم ترین کوششوں کو مظاہر فطرت میں اتحادواتفاق حاصل کرنے پر مامور قرار دیا جاسکتا ہے۔

تاہم ،یہ الگ بات ہے کہ ان کاوشوں کو اب تک مکمل کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوسکا۔ ارسطو اور بطلیموس کے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ آسمان اورزمین کے لئے قوانینِ فطرت (قوانینِ طبیعات)الگ الگ ہیں۔ لیکن پرنیکس ، گیلیلیو اور نیوٹن وغیرہ جیسے سائنسدانوں نے ،سترہویں صدی عیسوی تک، یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچادی کہ قوانینِ فطرت کی نوعیت آفاقی ہے۔ یعنی طبیعات کے جو قوانین زمین پرلاگو ہوتے ہیں، ٹھیک وہی قوانین اجرام فلکی (آسمانی اجسام)پر بھی عمل پیرا ہوتے ہیں۔


ان کے بعد جین کلارک میکسویل نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں برقی اور مقناطیسی مظاہر فطرت کوچار مساواتوں کے تحت بڑی خوبصورتی سے یکجا کیا اور بتایا کہ برق ومقناطیس ’’اصل میں دونوں ایک ہیں۔‘‘ اس اہم دریافت کی بدولت جہاں قوانینِ طبیعات میں اتحاد کوایک نمایاں کامیابی نصیب ہوئی تو دوسری طرف جدید صنعتی انقلاب کی راہیں بھی ہموار ہوئیں…جس کے ثمرات سے ہم آج تک فیضیاب ہورہے ہیں۔

پھر بیسویں صدی میں کوانٹم میکانیات اور جدید سے جدید ترآلات کے طفیل ،ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ کائنات میں چارقوتوں کی حکمرانی ہے: برقی مقناطیسی قوت، کششِ ثقل کی قوت، کمزور نیوکلیائی قوت اور مضبوط نیوکلیائی قوت۔ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف محسوس ہونے والی ان قوتوں (اور ان سے متعلق قوانینِ طبیعات )کے بارے میں ماہرین کوپورا یقین ہے کہ یہ بھی اصل میں ایک ہی ہیں ۔


مطلب یہ کہ قوانین طبیعات کا کوئی ایک مجموعہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جوباہم مربوط ومنظم رہتے ہوئے، ان تمام قوتوں کی مکمل وضاحت کرسکے۔ باالفاظ دیگر، ماہرین کو کائنات کے مکمل ترین اور ’’متحد‘‘ نظرئیے کی تلاش ہے۔ جدید طبیعات میں یہی وہ محاذ ہے جس پر بہترین پیش رفت کے باوجود حتمی کامیابی کا دور دور تک پتا نہیں۔ غور فرمائیے کہ ہم نے ’’حتمی کامیابی‘‘ کہا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک قوانین طبیعات میں اتحاد کی جتنی کوششیں بھی ہوئی ہیں، ان میں جزوی یا نامکمل کامیابیوں ہی نے ہمارا استقبال کیا ہے ۔

مثلاً یہ کہ ذراتی طبیعات میں ’’معیاری نمونے‘‘ (اسٹینڈرڈ ماڈل)تک ہماری رسائی ہوچکی ہے جس میں تین کائناتی قوتوں(برقی مقناطیسی،کمزور نیوکلیائی، اور مضبوط نیوکلیائی قوت)کو کسی حد تک یکجا کردیا گیا ہے ۔ تاہم ،اسٹینڈرڈ ماڈل کوایک طرح کا ضابطۂ کار(فریم ورک)ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن مذکورہ تینوں قوتوں کا ’’متحدہ‘‘ نظریہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔


یہاں یہ یاددلانا ضروری ہے کہ اسٹینڈرڈماول کا انحصار کوانٹم میکانیات پرہے جبکہ اس میں خصوصی نظریہ اضافیت کا ’’تڑکا‘‘ بھی لگا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسٹینڈرڈماڈل میں شامل تینوں کائناتی قوتیں، ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے مختلف انداز میں برتاؤ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں کی مساواتیں آپس میں جلتی ضرور ہیں لیکن مکمل طورپر یکساں ہرگزنہیں۔

البتہ،1960ء کے عشرے میں آنجہانی ڈاکٹر عبدالسلام ، اسٹیون وائن برگ اور شیلڈن لی گلا شونے آزادانہ حساب کتاب لگا کر یہ بتایا کہ نہایت بلند درجہ حرارت پربرتی مقناطیسی قوت اورکمزور نیوکلیائی قوت کو ایک ہوجانا چاہئے۔ اس دریافت پران تینوں صاحبان کو1979ء میں نوبل انعام برائے طبیعات کا مشترکہ حقدار قرار دیا گیا۔ پھر1984ء میں ذراتی طبیعات کی یورپی تجربہ گاہ(سرن)میں یہ بات عملاً ثابت بھی ہوگئی۔ اس کامیابی نے بہت سی امیدوں کومہمیز کردیا۔

برقی مقناطیسی اورکمزور نیوکلیائی قوتوں میں اتحاد کے پیش نظر، سائنسدانوں نے کہنا شروع کردیا کہ مضبوط نیوکلیائی قوت بھی ان دونوں کے ساتھ یکجا ہوجائے گی،اور اس کے کچھ قابل مشاہدہ ثبوت بھی ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ ایک لمبے عرصے میں کوئی پروٹون خود بخود انحطاط پذیر ہوجائے گا۔ لیکن اب تک ایسا کوئی مشاہدہ نہیں کیا جاسکا، امیدیں ضرور قائم ہیں۔

تین کائناتی قوتوں میں باہمی اتحاد کا معاملہ ایک طرف، لیکن چوتھی قوت(یعنی قوتِ ثقل)اب سب سے زیادہ پریشان کن ثابت ہورہی ہے۔ سرِدست ہمارے پاس قوتِ ثقل کو بیان کرنے کیلئے عمومی نظریہ اضافیت ہی بہترین نظریہ ہے ،جو کلاسیکی نوعیت کا حامل ہے۔

یہ نظر یہ زماں ومکان (ٹائم اینڈاسپیس)کوہموار اورمسلسل قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس ،ذیلی ایٹمی ذرات اورقوتوں پر حکمرانی کرنے والی کوانٹم میکانیات کی رو سے کائنات کی ہر شے غیر مسلسل ہونی چاہئے۔ اگر ہمیں کائنات کی تمام قوتوں کو ،یعنی تمام قوانین طبیعات کو متحد کرنا مقصود ہے تو اس کیلئے لازماً کوئی ایسی راہ نکالنی ہوگی کہ کوانٹم میکانیات اورعمومی اضافیت بھی ایک ہی جھنڈے تلے اکٹھی ہوجائیں۔ افسوس کہ اب تک اس ضمن میں ’’امیدوار نظریات‘‘ تو بھاری تعداد میں پیش کئے جاچکے ہیں،مگران میں سے کوئی ایک بھی عملی تجربے کی کسوٹی پرپورا اترتادکھائی نہیں دیتا۔

سرِدست ان میں سب سے مضبوط اورامیدوار ’’سپراسٹرنگ تھیوری‘‘ ہے جس میں (نظری طورپر)چاروں کائناتی قوتوں کو یکجا کر دیاگیا ہے۔ لیکن اس کی پیش گوئیوں کوتصدیق یا تردید کے لئے جتنے طاقتور تجرباتی آلات کی ضرورت ہے ، وہ موجودہ ٹیکنالوجی کے لئے قطعاً ناممکن ہیں۔ پھر یہ کائنات کو10یا11جہتوں پرمشتمل بتاتی ہے، درجنوں نئے ذرات کی پیش گوئی کرتی ہے، اورایسی ایسی مغزسوزی تجویز کرتی ہے کہ شاید ہی کوئی انسانی دماغ اس کا احاطہ کرسکے۔ یہ حقائق دیکھ کر ایک تشویش اوربھی سراٹھارہی ہے: کہیں یہ تمام کوششیں،کارِلاحاصل تونہیں؟

(f)انسانی عمر کس حد تک بڑھائی جاسکے گی؟

ہماری بڑی بوڑھیاں بھی کس خوبی سے لمبی عمر کی دعائیں دیا کرتی ہیں: جُگ جُگ جیو،دُودھوں نہاؤ پُوتوں پھلو۔ یہ دعائیں عقل میں بھی آتی ہیں کہ ان کا پورا ہونا،قرینِ قیاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن مرزاغالب نے اپنے ممدوح کو ’’خدا کرے کہ تم جیو ہزار برس، ہر ایک برس کے دن ہوں پچاس ہزار‘‘ کی دعا دے کر انتہا کردی۔ حساب لگائیے کہ خدا نخواستہ اگر مرزا نوشہ کی یہ دعا قبول ہوجاتی، تو ان کے ممدوح کوایک لاکھ چھتیس ہزار نوسو چھیاسی سال اور چارمہینے زندہ رہنا پڑجاتا،اور بقول ابنِ انشاء مرحوم ’’اتنے عرصے کرتے تو کیا کرتے۔ بادشاہی تورہی نہیں، کہاں سے کماتے اور کیسے کھاتے؟‘‘ شکرہے کہ دعاقبول نہیں ہوئی۔

تفُن برطرف ،لیکن انسانی عمر میں اضافہ آج تک کی طب اور حیاتیات کو درپیش ،چند اہم چیلنکجوں میں سے ایک ہے۔ صنعتی دنیا نے اپنی ترقی اور عوام کے ’’بلند معیارزندگی‘‘ کا خراج ،ترقی پذیر ممالک سے خوب وصول کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف اوسط درجے کے غریب ملک کااوسط انسان، 45سے50سال زندہ رہنے کے بعدہی ’’راہی ملکِ عدم‘‘ ہوجاتا ہے تو دوسری جانب ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں70یا80سال کی عمر تک پہنچ جانا بھی کوئی غیر معمولی بات ہی نہیں۔

1997ء میں آنجہانی ہونے والے جینی کلیمنٹ نے122سال کی عمرپائی ، اور یوں وہ جدید تاریخ ریکارڈ کے مطابق سب سے عمررسیدہ انسان بھی قرار پائی۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے ہردس ہزار میں سے کوئی ایک فرد 100سال یا اس سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتا ہے۔

طب اور حیاتیات کے دوسرے شعبوں کی طرح ،عمررسیدگی کے میدان میں بھی سالماتی تحقیق سے ہمیں بہت کچھ جاننے کو ملا ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر کیچووں کی بعض اقسام میں انسولین جیسے ایک آخذے (ریسپڑ)کی سرگرمی کم کردی جائے تو ان کی عمر معمول سے دگنی ،یعنی 65ہفتے تک ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب چوہوں کی بعض اقسام کو نیم فاقہ زدہ حالت میں رکھتے ہوئے غذائیت سے بھرپورغذائیں کھلائی گئیں جومقدار میں ضرورت سے کم تھیں، تو ان کا عرصہ حیات بھی معمول سے50فیصد تک بڑھ گیا۔

اس سلسلے کی ایک اور مثال میں پھل مکھیوں (فروٹ فلائیز)کے جین میں ردّ وبدل کرکے ان میں زندگی کا دروانیہ دوگنا تک کرلیاگیا۔ لیکن یہ ساری مثالیں توان جانداروں کی ہیں جو انسای نقطۂ نگاہ سے )بہت ہی کم عمر ہوتے ہیں۔ کیاان تحقیقات سے حاصل شدہ نتائج سے انسانی طویل العمری کے ضمن میں کوئی کامیابی مل سکے گی۔اس سوال کا جواب آج تک مبہم ہے، یعنی ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کے درمیان معلق ہے۔

اب تک کے مطالعات سے اتنا ضرور واضح ہوچکا ہے کہ قدرے کمتردرجے والے جانداروں میں طبیعی عمر کے حوالے سے غیر معمولی لچک پائی جاتی ہے، جو شاید انسان میں موجود نہیں۔ اگر ساری دنیا کے انسانوں میں طبیعی عمر کا اوسط نکالا جائے تو وہ60سال کے لگ بھگ ہوگا۔ گزشتہ ایک صدی میں ہونے والی ترقی کے باوجود ،اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ اپنی تمام تر کوششوں ،بہترین طبی سہولیات اور وافر غذا کے باوجود، ترقی یافتہ ممالک میں انسانی طویل العمری کا یہ اوسط صرف دس سے بیس سال تک ہی بڑھ سکا ہے۔ جوتاریخ بین الاقوامی اوسط سے صرف33فیصد تک ہی زیادہ ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود، حالیہ تحقیقات سے کچھ ایسے عوامل بھی سامنے آچکے ہیں جوانسانی عمر کے معاملے میں اہم تصور کئے جارہے ہیں: حراروں کی محدود فراہمی(کیلوری ریسٹرکشن) ،’’انسولین لائک گروتھ فیکٹروں ‘‘ (IGF-1)نامی پروٹین کی سطح میں کمی ،اور تکسیدی عمل کے باعث انسانی بافتوں کو پہنچنے والے نقصان سے بچاؤ۔ یہ تینوں اسباب آپس میں مربوط بھی ہوسکتے ہیں لیکن فی الحال اس بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ علم نہیں۔

علاوہ ازیں ،انسانی عمر میں اضافے پرتحقیق میں کئی اخلاقی اور تکنیکی قباحتیں بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس طرح کا کوئی مطالعہ ترتیب دینا بہت مشکل ہے جبکہ ،دیگر طبی آزمائشوں کے برعکس ،اس کے نتائج کا حصول اوروضاحت بھی دشوار ہیں۔ سردست بوزٹوں(بن مانسوں)میں عمررسیدگی پرحراروں کی محدود فراہمی کے اثرات کا مطالعہ جاری ہے۔

دوسری جانب ہیتھیسڈا، میری لینڈ میں واقع ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ایجنگ ‘‘ کی مالی سرپرستی میں انسانوں پر بھی ایسا ہی ایک مطالعہ جاری ہے، جس کے تحت رضا کاروں کو ایک سال تک کم غذا پر رکھا جاتا ہے اور اس دوران ان کے استحالہ (میٹابولزم)اور عمررسیدگی پراثرانداز ہونے والے دیگر عوامل کا جائزہ لیاجاتا ہے۔

مذکورہ اسباب وعوامل کے علاوہ ،سائنس دانوں کا خیال ہے کہ طویل العمری کی صلاحیت ہماری جینیاتی وراثت بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی ایسے ’’جین ‘‘(genes)بھی ہوسکتے ہیں جوایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں طویل العمر بناسکتے ہیں۔ لیکن اس پراتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے کہ اس ’’موروثی طویل العمری ‘‘ کی زیادہ سے زیادہ حد 85سال ہے، 100سال ہے یا150سال۔

عمررسیدگی کے شعبے میں ہمارے کروموسوم کے سروں پر چڑھے ہوئے ’’سالماتی ڈھکنوں ’’یعنی ‘‘ ٹیلومرز‘‘ کاکردار بھی واضح ہوچکا ہے۔بچپن میں ٹیلومرز کی لمبائی خاصی زیادہ ہوتی ہے جبکہ بڑھاپا آتے آتے وہ بہت مختصر رہ جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ انسانی عمررسیدگی اورطویل العمری کی ممکنہ انتہاؤں پر تحقیق میں بھی ہم کئی لاینحل سوالوں کو اپنا منتظر پاتے ہیں۔

اس سے قطع نظرکہ عمررسیدگی اور طویل العمری پر ہونے والی یہ تحقیقات مستقبل قریب یابعید میں بار آورثابت ہوتی ہیں یا نہیں، اتنا ضرورطے ہے کہ سنجیدہ ماہرین کے نزدیک ان کا مقصد انسان کو صدیوں تک زندہ رکھنا ہرگزنہیں…بلکہ وہ تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان امراض کا ازالہ کیا جائے جوعمر رسیدگی کے باعث انسان کولاحق ہوتے ہیں۔ یقینا ہمیں اس اصولی مؤقف سے پورا اتفاق ہے، بشرطیکہ اس کے پس پشت خود غرضانہ تجارتی مقاصد پوشیدہ نہ ہوں۔

g) کٹے ہوئے اعضاء دوبارہ کیسے ’’اُگائے‘‘ جاسکتے ہیں؟

بجلی والے ہرسال برسات سے پہلے شہر بھرمیں درختوں کی شاخیں کاٹتے پھرتے ہیں، کہ کہیں تاروں میں الجھ کر ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ کو ’’بریک ڈاؤن‘‘ نہ بنادیں۔ لیکن چند دن بعد ہی وہ شاخیں ایک بارپھر لہلہانے لگتی ہیں گویا بجلی والوں کا منہ چڑارہی ہو۔ اسی طرح چھپکلی کی دم کاٹ دیجئے تو کچھ ہی دن بعد وہ دوبارہ اُگ آئے گی۔ ستارہ مچھلی کے ’’وچوں دِچ دوٹوٹے‘‘ کردیجئے تو ان میں سے ہر ایک جلدہی مکمل ستارہ مچھلی میں بدل جائے گا ۔ مگر خدانخواستہ کسی انسان کا ہاتھ یا پیرکٹ جائے تو وہ دوبارہ نہیں اُگ سکتا، کسی کا گردہ نکال لیا جائے تو اس کی جگہ نیا گردہ نہیں اُگتا۔

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے! کم تردرجے کے جانداروں کا یہ حال کہ ہاتھ پیرکٹیں یا درمیان سے دو ٹکڑے کردیئے جائیں تب بھی وہ پورے پورے اعضاء نئے سرے سے ازخود بنالیں…اور ادھر اشرف المخلوقات کی بے بسی کا یہ عالم کا اُنگلی کی ایک پوربھی قطع ہوجائے تو خود سے ازسرِنو اُگنے نہ پائے۔

دنیائے حیات کی سیر کرنے کے بعد جب ہم انسان تک پہنچتے ہیں تو یہ سوال ہمیں بے چین کئے ڈالتا ہے کہ آخر ہم میں ایسی کونسی کمی ہے جو ہمارے اعضاء دوبارہ سے اُگنے نہیں پاتے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان سمیت، بہت سے پیچیدہ اورترقی یافتہ جانداروں میں اپنے اعضاء دوبارہ سے اُگانے کی صلاحیت …جسے اصطلاحاً ’’بازافزائش ‘‘(regeneration)کہتے ہیں …کمتر اور قدر ے سادہ جانداروں کے مقابلے میں بہت کم ضرور ہے ،ناپیدہرگزنہیں۔

ہرہفتے ناخن تراشتے اورہر مہینے بال کٹواتے وقت ہمارا دھیان اس طرف کم ہی جاتا ہے کہ سال میں ایک بارہماری کھال مکمل طورپر تبدیل ہوجاتی ہے(تاہم ،یہ عمل اس قدر آہستہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا)۔اسی طرح اگرہمارے جسم پر کوئی زخم لگ جائے یا کوئی جزوی طورپر کٹ جائے تو اکثر اوقات وہ بھی ’’اپنی مدد آپ ‘‘ کے تحت خود بخود جڑجاتی ہے اورزخم مندمل ہوجاتا ہے ۔ لیکن ہماری جستجو تومسلسل ’’کچھ اور‘‘ کی متقاضی ومتلاشی ہے۔

اگر سائنسداں باز افزائش کے راز کھوجنے میں کامیاب ہوگئے، اوراس منزل تک بھی ان کی رسائی ہوگئی کہ انسانی جسم کو ’’حسب ضرورت‘‘ متاثرہ/ناکارہ اعضاء خود ہی اُگانے کے قابل بنالیں، تو یہ اکیسویں صدی میں طب کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ مگریہ منزل جتنی امید افزاء ہے ، اس تک پہنچنے کے راستے بھی اسی قدردشوار ہیں۔ فی الحال اس ضمن میں سب سے بڑا سو ال یہ ہے کہ آخر وہ کون کون سے عوامل ہیں جو باز افزائش کی بنیاد بنتے ہیں۔

چھپکلیوں اورہائیڈرا(ایک قسم کے آبی پودے)پربازافزائشی تحقیقات کا سلسلہ کم وبیش ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں تھامس ہنٹ مورگن نے یہ دریافت کرلیا تھا کہ ’’پلینیریا(Planaria)نامی کیچووں کو اگر 279ٹکڑوں میں بھی تقسیم کردیا جائے تو ہرٹکڑادوبارہ سے ایک مکمل پلینیریا میں تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن اپنی اس اہم دریافت کوخود مورگن ہی نے نظرانداز کردیا اور دوسرے موضوعات پرتحقیق میں مصروف ہوگیا۔ مگریوں لگتا ہے جیسے اکیسویں صدی میں مورگن کی تحقیقات کا ایک نئے انداز سے احیاء ہورہا ہے۔

ماہرین کی بعض تحقیقی ٹیمیں سالماتی حیاتیات اورجینیات کے راستے بازافزائش کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں۔ اور اس مقصدکے لئے وہ بعض مخصوص اقسام کے چوہوں اورزبیرا مچھلی(زبیرافش)سے استفادہ کررہے ہیں۔ اگر چہ بازافزائش کامعماابھی حل تونہیں ہوا ہے، لیکن سائنسدانوں کو اس بارے میں کچھ سراغ ضرور مل گئے ہیں۔

اب وہ جان چکے ہیں کہ جانوراپنے اعضاء نئے سرے سے اُگانے کے لئے تین اہم تدابیر اختیار کرتے ہیں ۔ اوّل یہ کہ کسی عضو کے زخمی یامتاثر ہوجانے پروہ خلیات بھی تقسیم ہونے لگتے ہیں جو عام حالات میں ایسا نہیں کرتے…تاکہ متاثرہ عضو کو صحت مند حالت میں واپس لایا جائے۔ دوم یہ کہ خصوصی اطلاق اورذمہ داریوں کے حامل خلیات اپنی حالت بدل کر قدرے ناپختہ کیفیت میں پلٹ جاتے ہیں۔

یہ عمل ’’تفریق ربائی‘‘(dedifferentiation)کہلاتا ہے ۔ ناپختہ حالت میں ’’ریوائنڈ ‘‘ ہونے کے بعد، یہ خلیات ایک بارپھر تقسیم درتقسیم ہوتے ہیں اورمتاثرہ عضو کے ضائع شدہ حصوں کی مطابقت میں خود کو نئے سرے سے پختہ شکل میں ڈھالتے ہیں۔ اگر متاثر ہونے کی کیفیت اس سے بھی سنگین ہوتو پھر تیسری صورت میں خلیات ساق(Stem Cells) درمیان میں کود پڑتے ہیں اورعضو کی ’’تعمیر نو‘‘ کرتے ہیں۔

انسانی جسم بھی ان تینوں تدابیر سے استفادہ کرتا ہے ، لیکن بہت محدود پیمانے پر۔ مثلاً یہ کہ اگر کسی شخص کے جگر کا کچھ حصہ آپریشن کرکے نکال دیاجائے ،تواندرونی طورپر خودبخود کچھ ایسے سگنل پیدا ہونے لگتے ہیں کہ باقی ماندہ جگر کے خلیات تقسیم درتقسیم ہوکر ادھورے جگر کی تکمیل کرلیتے ہیں۔

بازافزائش کے راز افشا کرنے کی کوششوں میں مصروف سائنسدانوں کے لئے یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ آخرانسانوں اور جانوروں کے بازافزائشی نظام میں کیا فرق ہے کہ وہ تو پورا پورا عضو دوبارہ سے بنالیتے ہیں اور ہم معذور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بعض مطالعات سے اندازہ ہوا ہے کہ شاید انسانوں اورجانوروں کے درمیان بازافزائشی نظام کا فرق بہت ہی معمولی ہو۔ مگرفی الحال یہ بھی ایک امید ہی ہے۔ جہاں تک نفع نقصان کا تعلق ہے توبازافزائشی تحقیق میں کامیابی کا سب سے بڑا فائدہ انسانیت کا ہوگا…اور سب سے بڑا نقصان ادویہ ساز کمپنیوں کو

بازافزائش کومکمل طورپر سمجھ کراور اس کے اطلاق پرعبور حاصل کرکے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اعضاء کے عطیے اورپیوندکاری کی ضرورت ہی ختم ہوجائے۔

دورکی کوڑی ہی سہی، لیکن انسانی جسم میں بازافزائشی صلاحیتوں کومہمیز کرکے اس قابل بنایا جاسکے گا کہ (ہڈیوںاور گوشت سمیت)پورا عضو خود بخود پھرسے بن جائے۔ یہ بھی نہ سہی تو کم از کم اتنا ضرور ممکن ہوگا کہ متاثرہ شخص کے جسمانی خلیات لے کر، تجربہ گاہ کے خاص ماحول میں ، اس شخص کا پورا عضو نئے سرے سے ’’مینوفیکچر ‘‘ کرلیا جائے اور واپس اسی کے جسم میں پیوندکردیا جائے۔

لیکن ٹھہرئیے! اپنے تخیل کولگام دیجئے، کیونکہ جن توقعات کی ہم بات کررہے ہیں، ان کے پورے ہونے میں ’’اگر ‘‘ کے بہت سے مگر مچھ منہ پھاڑے کھڑے ہیں ۔ ان سے بخیروخوبی گزرکرہی یہ طلسم فتح ہوسکے گا۔

h)کھال کا خلیہ کس طرح ایک اعصابی خلیہ بن سکتا ہے؟

کیمیا کے چاہنے والے شاید اس کا برا منائیں،لیکن تاریخی حقیقت یہی ہے کہ زمانہ قدیم میں کیمیا کا آغاز اس ’’نیت‘‘ سے ہوا تھا کہ لوہے، تانبے اوردوسری کم قیمت دھاتوں کوسونے میں تبدیل کرلیا جائے۔ ان کی کوششیں توبارآورثابت نہ ہوسکیں لیکن سائنس کی ایک ایسی اہم شاخ ہمارے ہاتھ ضرور آگئی جو اپنی ذات میں سونے اور چاندی سے بھی کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہ بات ہمیں اس لئے یاد آگئی کہ آج ماہرینِ حیاتیات وافزائش ِ نسل ،اس تگ ودو میں مصروف ہیں کہ کسی طرح سے ایک عام خلئے (مثلا کھال کے خلئے)کوہر فن مولا قسم کے ’’خلیاتِ ساق‘‘(stem Cells)میں تبدیل کرلیں۔ ان کی کوششیں ’’کلوننگ‘‘ کے عنوان سے نہ صرف بڑی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں، بلکہ گزشتہ دس سال کے دوران خاصی بہتربھی بنائی جاچکی ہیں۔

کلوننگ کے سب سے مشہور طریقے میں، جسے ’’نیوکلیائی منتقلی کی تکنیک ‘‘(nuclear transfer technique)بھی کہا جاتا ہے، سب سے پہلے کسی مادہ جانور کا بیضہ خلیہ(Ocyte)لے کر اس کا مرکزہ ’’نکال باہر‘‘ کردیا جاتا ہے۔ پھر اس بیضہ خلئے میں اس جانور کی کھال یا تھن کا خلیہ داخل کیا جاتا ہے۔

خاص طرح کے طبیعی وکیمیائی ماحول میں کچھ دیر (چندگھنٹے یا چند دن)تک رکھنے کے بعد، وہ بیضہ خلیہ اپنی شکل بدل لیتا ہے اور باروربیضے(fertilized egg)کا روپ دھارلیتا ہے۔ پھر یہ بارور بیضہ بھی تقسیم درتقسیم کے مرحلے سے گزرتا ہے اور کچھ دیر بعد ناپختہ جنین (embryo)کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اب یہ جنین اسی نوع کے کسی مادہ جانور کے رحم میںمنتقل کردیا جاتا ہے جہاں یہ عام حمل کی مانند پروان چڑھتا ہے اور آخر کار ایک ’’کلون شدہ‘‘ (cloned)جانور کی حیثیت سے جنم لیتا ہے۔

لیکن ٹھہرئیے! ہم نے کلوننگ کا یہ سارا عمل جس آسانی اور اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، حقیقتاً یہ اتنا ہی پیچیدہ اورمشکل ہے۔ مثلاً مشہورِ زمانہ کلون شدہ بھیڑ ’’مرحومہ ڈولی‘‘ ان 278کوششوں میں سے صرف ایک تھی کہ جن میں سے277ناکام ہوگئی تھیں۔ آج کلوننگ کے ذریعے گایوں، بھیڑوں ، بکروں ،بلیوں، چوہوں اورگھوڑوں وغیرہ کی پیدائش کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں رہی…مگر سائنسدان اب بھی یہ نہیں جانتے کہ ’’جسمانی خلیہ بردار ‘‘ بیضہ خلئے کے اندر ایسا کیا کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصل کوفراموش کرکے بارور بیضے میں تبدیل ہوجاتا ہے ،اور آخرکار ایک جیتے جاگتے وجود میں ڈھل جاتا ہے؟

یادش بخیر، نیوکلیائی منتقلی کی تکنیک سے اوّلین کلوننگ کے کامیاب تجربات 1957ء میں مینڈکوں پر کئے گئے تھے۔ آج اس واقعے کوگزرے ہوئے 70 سال ہوچکے ہیں ، لیکن بیضہ خلیہ اب بھی ہم پراپنے اسرار کھولنے کے لئے تیار نہیں۔ البتہ،اب تک کی گئی تمام کوششوں سے اتنا اندازہ ضرور ہوچکا کہ کلوننگ اورمعمول کی افزائش نسل سے وابستہ حیاتیات کوسمجھنے کے لئے ہمیں خلئے کی گہرائیوں تک نہایت تفصیل سے دیکھنا پڑے گا ، اور اس سارے عمل کی سالماتی جزئیات تک کی باریکیوں کوسمجھنا ہوگا۔ قصہ مختصر یہ کہ تولید وتخلیق کی حیاتیات سے واقف ہونا، اور پھر اسے اپنے اختیار میں لانا، کوئی آسان کام نہیں۔

فی الحال ہم اتنا توجان چکے ہیں کہ ہماری ظاہری شکل وصورت سے لے کر ہمارے مزاج وغیرہ تک، کم وبیش ہرچیز کا انحصار ہماری جینیاتی ترکیب وترتیب پر ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ جاننا ہی کافی ہے؟ ہرگز نہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیوکلیائی منتقلی کی تکنیک ہو(جس میں بیضہ خلئے کے اندرکوئی دوسرا جسمانی خلیہ رکھا جاتا ہے)یا قدرتی نوعیت کی افزائش نسل(کہ جونراور مادہ کروموسوم کے آپس میں ملاپ کا نتیجہ ہوتی ہے)،دونوں کے ابتدائی مراحل میں تمام جین سرگرم ہوتے ہیں۔ لیکن حمل کا یہ سلسلہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے ،اور جنین رحم مادرمیں پروان چڑھتا ہے، تو جہاں خلیات میں تقسیم درتقسیم ہوتی ہے وہیں صرف ایک باروربیضے سے سینکڑوں اقسام کے خلیات بھی وجود میں آتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دماغ کا خلیہ بنتا ہے توکوئی اعصابی نظام کا، کوئی سخت ہڈی میں شامل خلئے کا روپ دھارتا ہے توکوئی لچک دار کھال کا خلیہ بن جاتا ہے۔

تفریق پذیری (differentiation)کہلانے والے اس عمل کی بہت سی باتیں ابھی ہمارے علم میں نہیں۔ ہم اس نظام کی مبادیات ہی سے واقف ہوپائے ہیں جو اس پورے عمل کے دوران چند ضروری جین کوچھوڑکرباقی تمام جین کو’’آف‘‘ کردیتا ہے۔ اس کا مطلب یوں سمجھئے کہ کھال کے ایک خلئے میں وہ تمام جین موجود ہوتے ہیں جو کسی دماغی خلئے میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن صرف وہی جین سرگرم ہوتے ہیں جوکھال سے متعلقہ امور سرانجام دینے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔

اسی طرح کلوننگ کے تجربات میں انکشاف ہوا ہے کہ جب نیوکلیائی منتقلی کے بعدکوئی عام بیضہ خلیہ، خود کو بارور بیضے میں تبدیل کرتا ہے تو ان تمام جین (genes)کوبھی سرگرم کردیتا ہے جوقبل از موجود تو تھے، لیکن خاموش تھے۔ وہ کیسا نظام ہے جوایک باروربیضے کو سینکڑوں اقسام کے کھربوں خلیات پرمشتمل وجود میں تبدیل کرتا ہے؟ اس بارے میں گزشتہ پچاس سال کی انتھک تحقیقی کاوشیں بھی تھوڑا بہت ہی بتاسکی ہیں۔ آنے والے برسوں اور عشروں میں، بلکہ شاید پوری صدی تک، ہمیں اس نظام کوبالتفصیل سمجھنا ہوگا۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے دنیا بھر کے سنجیدہ سائنسی ماہرین ،مذہبی طبقے کے سامنے دستِ سوال دراز کئے ہوئے ہیں کہ انہیں انسانیت کی فلاح وبہبود کے نام پر انسانی جینیاتی خلیات ساق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

عیسائیت اس عمل کے سخت خلاف ہے، اسلام میں اس حوالے سے علماء کی کوئی متفقہ رائے موجود ہی نہیں جبکہ یہودیت کے مطابق ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود کچھ مغربی ممالک نے سخت شرائط کے ساتھ انسانی جنینی خلیاتِ ساق استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ادھر ایشیا کے بیشتر سیکولر ملکوں میں اس پر پابندی نہیں۔ تاہم پابندیاں ختم کربھی دی جائیں تویہ سوال شاید برسوں تک حل طلب ہی رہے ۔

Quran And Science

 قرآن حکیم کی روشنی میں سائنس کا بیان


اس سے پہلے کہ ہم اس نکتے کی وضاحت میں آگے بڑھیں، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ پوری طرح متوجہ ہوکر ایک ایک سطر کو بغور پڑھیں کیونکہ زیرِ بحث موضوع کا براہِ راست تعلق انسانوں کے سوچنے کے طریقہ کار سے ہے۔


ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یہ عقیدہ ہے (اور لازماً ہونا بھی چاہئے)کہ اﷲ ایک ہے، وہی سب کا خالق ومالک ہے، اوریہ کہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔مختصر یہ کہ عقیدہ توحیدکے مذکورہ بالا نکات ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہیں۔ بچپن ہی سے ہر مسلمان اپنے بزرگوں سے یہی سنتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ’’ہمیشہ‘‘ سے ہے اور ’’ہمیشہ ‘‘ رہے گا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ ’’ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم اس نکتے کی وضاحت میں آگے بڑھیں، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ پوری طرح متوجہ ہوکر ایک ایک سطر کو بغور پڑھیں کیونکہ زیرِ بحث موضوع کا براہِ راست تعلق انسانوں کے سوچنے کے طریقہ کار سے ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر شے کو اپنے نقطۂ نگا ہ سے دیکھنے اورسمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ، ’’میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں‘‘ یا میں ہمیشہ صبح نو بجے دفتر پہنچتا ہوں ‘‘ تو اس کا کیا مطلب ہے؟


اگر اس شخص کی عمر ساٹھ سال ہے توظاہر ہے کہ اس نے تین چار سال کی عمر میں ہوش سنبھالا ہوگا اور ممکن ہے کہ بیس سال کی عمر میں دفتر آنا شروع ہوا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے سچ بولنے کا عرصہ 56یا57سال ہوگا اور دفتر آنے کی مدت چالیس سال رہی ہوگی۔ یعنی اس کے ’’ہمیشہ ‘‘ کی مدت چالیس سال سے 57سال تک ہے۔

اسی طرح اگر کوئی یہ کہے ، ’’ میں فلاں صاحب سے اکثر ملتا رہتا ہوں ’’یا‘‘ فلاں صاحب سے کبھی کبھار میری ملاقات ہوتی ہے ’’یا ‘‘ ان صاحب کا دیدار تو شاذونادرہی نصیب ہوتا ہے ‘‘ تو ان تینوں کیفیات میں ’’اکثر‘‘ ،’’کبھی کبھار‘‘ اور ’’شاذو نادر‘‘ جیسے الفاظ کا تعلق ’’وقت ‘‘ کے اس تصورسے ہے جو ہمارے لاشعور میں بسا ہوا ہے۔ عین یہی معاملہ ہمارے روزمرہ مکالمے میں ’’ہمیشہ‘‘ کا بھی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان ’’اشرف المخلوقات‘‘ ہے…لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک مخلوق کی حیثیت سے ہم قوانین قدرت سے آزاد نہیں۔

ارکرہ ارض کو ممکنہ شمسی طوفان کا خطرہ

 کرہ ارض کو ممکنہ شمسی طوفان کا خطرہ



رائٹرس کے مطابق امریکہ اور یورپ میں سائنسدانوں کی کئی ٹیمیں چوبیس گھنٹے سورج کا معائنہ کرتی ہیں اور مختلف ممالک، سیٹلائٹس، بجلی گھروں اور ایئر لائنز کو کسی بھی ممکنہ خطرے کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔



خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگلے دو سالوں کے دوران اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ کوئی شمسی طوفان دنیا بھر کے سیٹلائٹس، پاور گرڈز اور مواصلاتی نظاموں کو متاثر کرے یا پھر ناکارہ بنا دے۔ سورج ہر دس سال کے عرصے میں اپنی سرگرمی کا ایک مرحلہ مکمل کرتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اگلے دو برسوں کے دوران سورج اپنی اس سرگرمی کی چوٹی پر ہوگا اور یہی وجہ ہے کسی زبردست شمسی طوفان کے آنے کا امکان موجود ہے۔

اس بارے میں برطانیہ کی رادرفورڈ ایپلٹن لیبارٹری کے خلائی سائنسدان مائیک ہیپگوڈ کا کہنا ہے کہ ان دنوں مختلف ممالک کی حکومتیں اس ممکنہ مسئلے کو کافی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا، ’اس قسم کی چیزیں ویسے تو کافی کم ہی ہوتی ہیں لیکن جب ہوتی ہیں تو ان کے نتائج کافی تباہ کن ہو سکتے ہیں‘۔


وادرفورڈ ایپلٹن لیبارٹری کے اس سائنسدان نے بتایا ہے کہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہر ایک دہائی میں ایک بڑی نوعیت کے شمسی طوفان کے آنے کے قریب بارہ فیصد امکانات موجود ہیں جس کے مطابق ہر ایک سو سال میں ایک شمسی طوفان متوقع ہے۔ ان کے مطابق آخری مرتبہ ایک سو پچاس سال قبل زمین پر ایک بڑی نوعیت کا شمسی طوفان آیا تھا۔ کورونل ماس ایجیکشن اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں سورج سے ایک بہت بڑی مقدار میں ’میگنیٹک فیلڈز‘ ہواؤں اور شعاعوں کا خلا میں اخراج ہوتا ہے۔

شمسی طوفان کی صورت میں اصل خطرہ انہیں شعاعوں کے اخراج سے ہوتا ہے جو کہ مقناطیسی طور پر چارج شدہ پلازما کو کئی ملین ٹن گیس کے ساتھ زمین کی جانب دھکیلتی ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جب ایسے چارجڈ مادے انتہائی تیز رفتار میں زمین کی جانب بڑھتے ہیں تو وہ اپنی راہ میں آنے والے سیٹلائٹس، بجلی گھروں اور دیگر مواصلاتی ڈھانچوں کو منفی انداز میں متاثر کرنے یا پھر مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

KP to lose Rs100 billion due to FBR Shortfall

KP to lose Rs100 billion due to FBR Shortfall: Muzzammil Aslam KP Finance dept holds post-budget conference with KP-SPEED support Advisor to...