حالات حاضرہ میں ہمارے رویّوں کی عکاسی کرتی میری نئی مختصر کہانی
"بے حِس امدا د"
راحیل انار عباسی
فرید صاحب جھکی کمر کے ساتھ اسلم صاحب کی دوکان میں داخل ہوئے۔۔۔
آئیے آئیے چچا فرید کیسے ہیں آپ ۔۔اسلم صاحب نے ہاتھ ملاتے ہوئے چچا فرید کا استقبال کیا۔۔۔ارے بیٹا کیا ٹھیک ہوں پوار ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔۔۔بستیوں کی بستیاں تباہ ہوگئی ہیں۔۔اللہ ہی رحم کرے بس۔۔۔
ارے چچا یہ تو ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا ہے، اللہ کی نافرمانی کیوجہ سے ہی تو اللہ کے عذاب نے آن پکڑا انہیں۔۔۔۔اسلم صاحب سینہ تان کر بولے۔۔
بس بیٹا دعا کرو اللہ رحم کرے ان سب پر۔۔آمین اسلم صاحب نے آہستہ آواز میں کہا۔۔
خیر چچا آپ بتائیں کیسے آنا ہوا۔
بیٹا وہ دو کلو پیاز تو دے دو ۔۔چچا بولے۔۔
پیاز کا تو نہ ہی پوچھیں چچا پورے تین سو روپیہ کلو خود گاڑی والے سے آج ہی اتارا۔۔۔اسلم صاحب نے کہا۔۔۔بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔جی جی چچا صحیح کہہ رہا۔۔۔
چلو بیٹا ایک کلو ہی دے دو۔۔۔چچا بولے
اسلم صاحب دوکان کے اندر والے حصے گئے ، ارے او ناصر ذرا پیچھے گودام سے جاکر وہ جو بوریاں ہم نے دو ہفتے پہلے اتاری تھیں ان سے پیاز تو لے آؤ ۔۔۔اسلم صاحب نے دوکان پر کام کرنے والے ناصر کو حکم دیا۔۔۔
صاحب وہ تو ہم نے 80 روپیے کلو خریدا ہو ا ہے۔۔۔ناصر بولا۔۔۔۔
ارے چپ کرو ۔۔لوگوں کو کیا پتا ہم نے اتنے کا اتارا۔۔اور دوسرا یہی تو دن ہیں کمانے کے اور تمہیں پتا بھی ہے نا سیلاب متاثرین کی امداد بھی کرنی ہے تو وہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔۔۔اور یوں اسلم صاحب نے 320 کلو پیاز چچا فرید کو مسکراتے ہوئے پکڑا دیا۔
راحیل انار عباسی
No comments:
Post a Comment