Tuesday, October 7, 2025

Earthquake 2005

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ — یادیں، آنسو اور حوصلہ

**۲۰ سال بعد زلزلے کی بازگشت**


**تحریر:** عتیق سلیمانی

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ کی وہ صبح آج بھی لاکھوں دلوں میں زخم کی طرح تازہ ہے۔ گھڑیاں آٹھ بج کر پچاس منٹ کا وقت بتا رہی تھیں کہ زمین نے اچانک ایسا جھٹکا لیا جس نے پورے شمالی پاکستان، آزاد کشمیر اور ہزارہ کے پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ لمحوں میں بستیاں زمین بوس ہوئیں، سکول ملبے کا ڈھیر بن گئے، اور انسانی چیخوں نے وادیوں کی خاموشی چیر ڈالی۔




یہ زلزلہ صرف زمین کی ہلچل نہیں تھا، بلکہ قوم کی تاریخ میں ایک ایسے موڑ کی علامت بن گیا جس نے دکھ کے ساتھ ساتھ حوصلے، جذبے اور انسان دوستی کی نئی مثالیں بھی قائم کیں۔

تباہی کا لمحہ، قیامت کا منظر

اس زلزلے کی شدت **۷٫۶** ریکارڈ کی گئی، اور مرکز مظفرآباد کے قریب تھا۔ چند ہی سیکنڈ میں **۷۵ ہزار سے زائد جانیں** ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ لاکھوں گھر زمین میں دفن ہوگئے، اور اندازاً **تین ملین سے زیادہ لوگ بے گھر** ہو گئے۔

سب سے دردناک منظر تعلیمی اداروں کے تھے۔ ہزاروں بچے اپنے سکولوں کے ملبے تلے دب گئے۔ ایک لمحہ جو علم کے چراغ روشن کرنے کے لیے تھا، وہ اندھیرے کی علامت بن گیا۔

ریلیف کی دوڑ، انسانیت کا امتحان

زلزلے کے بعد پہاڑوں میں پھنسی بستیوں تک پہنچنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ سڑکیں ٹوٹ چکی تھیں، پل بہہ گئے تھے، اور مواصلات کا نظام مفلوج تھا۔

پاک فوج نے اپنی تمام تر توانائیاں بچاؤ اور امدادی کارروائیوں میں لگا دیں۔ دنیا بھر سے امداد پہنچی — ترکی، چین، امریکہ، جاپان، اور خلیجی ممالک نے خیمے، خوراک اور میڈیکل ٹیمیں بھیجیں۔ مگر سردیوں کی یخ بستہ ہوا میں پناہ سے محروم لاکھوں افراد کی مشکلات ناقابلِ بیان تھیں۔

امدادی تنظیموں کے خیموں میں بچے پڑھنے لگے، خواتین سلائی کڑھائی کر کے گھر چلانے لگیں، اور تباہ شدہ گھروں کی بنیادوں پر امید کے نئے چراغ روشن ہونے لگے۔

بحالی کا سفر — ملبے سے امید تک

ریلیف کے بعد سب سے بڑا مرحلہ **تعمیرِ نو** تھا۔ حکومتِ پاکستان، عالمی بینک، اور اقوامِ متحدہ نے مل کر اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کیے۔

نئے **سکول، ہسپتال، سڑکیں اور پل** بنے۔ "Earthquake Reconstruction & Rehabilitation Authority (ERRA)" نے لاکھوں گھروں کی تعمیر میں مالی مدد دی۔ تاہم، بیس سال بعد بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں زندگی مکمل طور پر واپس نہیں آئی۔

یہ زلزلہ ایک سوال چھوڑ گیا: کیا ہم نے سیکھا کہ محفوظ عمارتیں کیسے بنائی جائیں؟ کیا ہمارے شہروں میں آج وہ حفاظتی اقدامات موجود ہیں جو آئندہ کسی آفت سے بچا سکیں؟

زخم جو اب بھی بولتے ہیں

اس تباہی کے ساتھ نفسیاتی زخم بھی تھے۔ بہت سے بچے آج بھی رات کو خواب میں وہ لمحہ دیکھ کر جاگ جاتے ہیں جب ان کے گھر زمین میں دھنس گئے تھے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق PTSD یعنی **"بعد از صدمہ ذہنی دباؤ"** کے کیسز ہزاروں کی تعداد میں سامنے آئے۔

لیکن ساتھ ہی، انہی علاقوں سے وہ نوجوان نکلے جنہوں نے امدادی کارکن، انجینئر، اور رضاکار بن کر دوسروں کی زندگیاں سنواریں۔ زلزلے نے دکھ کے ساتھ ساتھ ایک **نیا جذبۂ تعمیر** بھی پیدا کیا۔

آفات سے سبق — یا پھر ایک بھولی کہانی؟

۲۰ سال گزرنے کے باوجود یہ سوال باقی ہے کہ کیا ہم نے اس سانحے سے وہ سبق سیکھا جو ہمیں سیکھنا چاہیے تھا؟

بلڈنگ کوڈز آج بھی بہت سے علاقوں میں محض کاغذوں میں محدود ہیں۔ اسکولوں کی عمارتیں اب بھی زلزلہ مزاحم نہیں۔ اور ہمارے ہنگامی ادارے آج بھی محدود وسائل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

قدرت نے ہمیں وارننگ دی تھی — لیکن کیا ہم نے اسے سنا؟

حوصلہ، جذبہ اور یاد

مظفرآباد، بالاکوٹ اور بٹگرام کے لوگ آج بھی اس دن کو آنسوؤں کے ساتھ یاد کرتے ہیں، مگر ان کے چہروں پر حوصلے کی چمک بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں:

> “زمین ہلی تھی، مگر ایمان مضبوط رہا۔”

یہ قوم گر کر بھی سنبھلنا جانتی ہے۔ ۸ اکتوبر صرف ایک زلزلے کی تاریخ نہیں — یہ **انسانی عزم اور اجتماعی حوصلے کا دن** ہے۔

بیس سال گزر گئے، مگر ان ملبوں سے جنم لینے والی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔

ان میں آنسو بھی ہیں، مگر امید بھی۔

اور شاید یہی پاکستان کی اصل طاقت ہے —

زمین ہلے تو ہلے، دل نہیں ہلتے۔

No comments:

Post a Comment

Earthquake 2005

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ — یادیں، آنسو اور حوصلہ **۲۰ سال بعد زلزلے کی بازگشت** **تحریر:** عتیق سلیمانی ۸ اکتوبر ۲۰۰۵ کی وہ صبح آج بھی لاکھوں دلوں میں ...