Saturday, August 2, 2025

Future Of Print Media

اخبارات کی اہمیت،درپیش مسائل اور آنے والا کل


سچ پوچھو تو آج کل اخبار چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ویسے تو لوگ کہتے ہیں کہ "اخبار مر گیا"، لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ پاکستان میں بھی اخبارات کا حال دگرگوں ہے، مگر پھر بھی ان کی ایک اپنی جگہ ہے۔ بات کرتے ہیں کہ مشکل کیا ہے؟ اہمیت کیا ہے، اور مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے۔

موبائل سب کچھ لے گیا:اب تو ہر کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، یا نیوز ایپس پر تو خبر پلک جھپکتے ہی پہنچ جاتی ہے۔ اخبار کو تو پرنٹ ہونے، پھر گلی گلی پہنچانے میں پورا دن لگ جاتا ہے۔ اس وقت تک تو خبر پرانی ہو چکی ہوتی ہے۔ اخبار چلانے کا سب سے بڑا سہارا اشتہارات تھے۔ اب وہ بھی گوگل اور فیس بک نے کھینچ لیے ہیں۔ جو اشتہار بچتے ہیں، وہ بھی بہت کم ہیں۔ اوپر سے کاغذ مہنگا ہو گیا ہے، پرنٹنگ مہنگی ہے، اخبار پہنچانے والوں کو تنخواہ دینی ہے۔ آمدنی کم، خرچہ زیادہ – حساب ہی نہیں بنتا۔
 نئی نسل کا تو اخبار پڑھنے کا شوق ہی کم ہو گیا ہے۔ وہ تو فون ہی کھولتے ہیں اور دنیا بھر کی خبریں دیکھ لیتے ہیں۔ انہیں کاغذی اخبار پلٹ کر پڑھنے میں وقت ضائع لگتا ہے۔ آن لائن تو ہر کوئی خبریں مفت میں پڑھنا چاہتا ہے۔ اخبارات اگر آن لائن پیسے مانگیں تو لوگ کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ مفت چلانے پر خرچہ کیسے نکلے؟ یہ الجھن بھی اپنی جگہ ہے۔
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل چینلز کی بھرمار ہے۔ ہر طرف خبریں، ویڈیوز، پوسٹس ہیں۔ ایسے میں پرانے اخبار کا اپنا نام قائم رکھنا بہت مشکل کام ہے۔فون پر خبر تو فوراً مل جاتی ہے، مگر اکثر یہ سطریں ہوتی ہیں۔ اخبار (چاہے پرنٹ ہو یا اچھا ڈیجیٹل) وہ پوری کہانی بتاتا ہے۔ وہ تجزیہ کرتا ہے، پس منظر دیتا ہے، سمجھاتا ہے کہ واقعی معاملہ کیا ہے۔ یہ "کیوں" اور "کیسے" کا جواب دیتا ہے۔ آن لائن پر تو ہر کوئی کچھ بھی لکھ دیتا ہے۔ اخباروں پر (اچھے اخباروں پر) کچھ ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ خبر چھاپنے سے پہلے اس کی پڑتال کرتے ہیں، اسے درست کرتے ہیں۔ یہ تصدیق کا کام بہت اہم ہے۔
بڑے ٹی وی چینلز تو صرف بڑی خبریں دکھاتے ہیں۔ اخبار، خاص کر علاقائی یا مقامی زبانوں (جیسے اردو، سندھی، پشتو اور پنجابی) والے، آپ کے محلے، شہر، یا صوبے کی خبریں دیتے ہیں۔ یہاں کا پانی کا مسئلہ، سڑک کی مرمت، اسکول کا حال – یہ سب انہی میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان میں اب بھی بہت سے بزرگ اور دیہات کے لوگ ہیں جنہیں انٹرنیٹ کا اتنا استعمال نہیں آتا، یا ان تک رسائی کم ہے۔ ان کے لیے کاغذی اخبار ہی خبروں اور معلومات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
 اخبار پڑھتے وقت آپ پر سکون ہوتے ہیں۔ آپ ایک خبر یا مضمون پر ٹھہر کر سوچ سکتے ہیں۔ فون پر تو انگشتھنی نیچے کرتے ہی چلے جاتے ہیں، کچھ یاد نہیں رہتا۔
کاغذی اخبار مکمل ختم نہیں ہوگا، مگر شاید روزانہ کی بجائے ہفتے میں ایک دو بار خاص ایڈیشن نکلیں گے جن میں گہرے مضامین، تجزیے ہوں گے۔ باقی توجہ اچھی ویب سائٹ اور ایپ پر ہوگی اچھی، گہری تحقیق اور سچی خبریں دینے والے اخبار آن لائن پیسے مانگیں گے۔ جو لوگ معیاری معلومات چاہیں گے، وہ یہ پیسہ دینے کو تیار ہوں گے۔چھوٹے یا مقامی اخبار اپنے علاقے پر پوری توجہ دے کر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جہاں بڑے میڈیا نہیں پہنچتے، وہاں ان کی خبریں بہت اہمیت رکھیں گی۔
 صرف خبر دینا کافی نہیں ہوگا۔ اخباروں کو پیچیدہ مسائل کو آسان بنانا ہوگا، گہری کھوج کرنی ہوگی، اور اعداد و شمار کو اچھے طریقے سے پیش کرنا ہوگا۔ صرف اشتہاروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ اسپانسر شدہ مضامین (لیکن صاف صاف بتا کر)، خصوصی پروگرام کرنےجیسے نئے راستے آزمانے ہوں گے۔ اخبار والوں کو اب ویڈیو بنانا، سوشل میڈیا چلانا، ڈیٹا سمجھنا، اور اچھی طرح آن لائن لکھنا جیسے نئے ہنر سیکھنے ہوں گے۔
یہ کہنا کہ اخبار مر گیا، غلط ہوگا۔ ہاں، وہ اخبار جو ویسے ہی چل رہا تھا جیسے بیس سال پہلے چلتا تھا، اس کے لیے وقت بہت سخت ہے۔ مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں۔ اصل چیز ہے "اخبار" کا مقصد: سچی، گہری اور ذمہ دارانہ معلومات پہنچانا۔ یہ مقصد آج بھی اُتنا ہی ضروری ہے، بلکہ جھوٹی خبروں کے اس دور میں شاید پہلے سے بھی زیادہ۔ پاکستانی اخبارات کو اپنی طاقت (مقامی زبان، گہری رپورٹنگ، عوامی رابطے) کو نئے دور کے ساتھ ملانا ہوگا۔ جو ایسا کر پائیں گے، وہی چل پڑیں گے۔ بات آخر یہی ہے کہ معیاری خبر اور سمجھدار تجزیہ چاہے کاغذ پر ہو یا اسکرین پر، اس کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔

No comments:

Post a Comment

CTD Peshawar Neutralizes Three FAKs (Fitna-tul-Khawarij) Responsible for 18 Terror Attacks

Peshawar(Press Release) *CTD Peshawar Neutralizes Three FAKs (Fitna-tul-Khawarij) Responsible for 18 Terror Attacks in District Peshawar.* P...