ہاتھ کا بنا برتن: کمہار کا ہنر زوال سے بقا تک
ایم عتیق سلیمانی
پاکستان کے دیہی مناظر میں کبھی کمہار کا چاک اُسی طرح بنیادی تھا جیسے مسجد کا مینار یا کنویں کا چرغہ۔ مٹی کے گھڑے، صراحی، دیئے، چٹّی (پکانے کا برتن)، حقے کی گُڈی اور چولہے کے کونڈے۔یہ سب گھر کی ضرورت بھی تھے اور ثقافتی پہچان بھی۔ آج، پلاسٹک، اسٹیل اور کارخانے کی چمکتی ہانڈیوں نے ان دیسی برتنوں کو دوکانی شو کیس تک محدود کر دیا ہے بلکہ شوکیس سے بھی مٹتے جارہے ہیں۔
مٹی اور تہذیب کا رشتہ وادئ سندھ کی قدیم تہذیب سے لے کر اسلامی عہد کے کاشی کاری تک، برصغیر میں مٹی کے برتن محض استعمالی شے نہیں رہے، یہ زیبائش ، روحانی علامت اور معاشی ہنر تھے۔ سندھ کے ہالہ کی کاشی کاری، ملتان کی نیل و فیروزی نقوش والی سفالیات، پنجاب و بلوچستان کی سادہ مگر نفیس ٹیرراکوٹا اشیاء اور خیبر پختونخوا کے دیسی دیئے و ماٹی کے گھڑے—ہر خطّہ اپنی مٹی کے رنگ، چکناہٹ اور بھٹّی کے درجہ حرارت سے ایک الگ اسلوب بناتا رہا۔
روایتی گاؤں کی معیشت میں کمہار مقامی مانگ پر پیداوار کرتا تھا۔ زرعی موسموں کے حساب سے گھڑے/صراحیاں (گرمیوں میں زیادہ)، دیئے (عید میلاد، دیوالی، محرم و میلوں تہواروں پر)،
* شادی بیاہ اور جنم/وفات کی رسومات کے خاص برتن،
* گھریلو پکوان کے لیے چٹّی اور کونڈا وغیرہ۔
ادائیگی اکثر نقد اور جنس (گندم/چاول/گُڑ) کی صورت میں ہوتی۔ یہ قریب کی منڈی پر منحصر، کم لاگت مگر کم منافع والی سپلائی چین تھی، جس میں کاریگر کے ہنر کی عزت بھی تھی اور گھر کاگزر بسر بھی۔
صنعتی متبادل کی یلغار پلاسٹک، اسٹیل اور ایلومینیم کے برتن سستے، ہلکے اور دیرپا—مارکیٹ نے افادیت پر قیمت کو ترجیح دی۔ فریج/واٹر کولر نے گھڑے کے ٹھنڈے پانی اور صراحی کی نفاست کو غیر ضروری بنا دیا۔
خام مٹی کی دستیابی، بھٹّی کا ایندھن، ٹرانسپورٹ اور ٹوٹ پھوٹ کے نقصانات سب مل کر کمہار کے منافع کو دبا دیا۔
کم آمدنی، سماجی اسٹیٹس اور تعلیمی/شہری ملازمت کی کشش نے نئی نسل کو چاک سے دور کر دیا ہے۔ ہنر مندی کے مراکز، ڈیزائن اپگریڈیشن، سستے قرضے، اور جی آئی (Geographical Indication) جیسے حفاظتی قوانین کا عملی نفاذ کمزور ہے۔
کم دیکھ بھال والے “ماڈرن” برتنوں نے مٹی کے برتن کے عضوی حسن (organic aesthetics) کو “دیہاتی” قرار دے کر حاشیے پر دھکیل دیا۔
مٹی کے برتن میں پکانے سے ہلکی آنچ اور نمی برقرار رہتی ہے، ذائقے میں نرمی آتی ہے۔ گھڑے کا پانی قدرتی تبخیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ مٹی بایوڈیگریڈ ایبل پلاسٹک کے برعکس مائیکروپلاسٹک پیدا نہیں کرتی۔
یہ وہ “قدریں” ہیں جن پر نئی منڈی اور شہری صارف کو دوبارہ قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہالہ (سندھ)کاثی/کاشی کاری، نقوش و رنگ کی روایت—ٹائلز، پلیٹرز، شو پیسز ۔ملتان (جنوبی پنجاب) نیل و فیروزی سفال، خطاطی و نباتاتی ڈیزائن—سیاحتی برانڈ بننے کی صلاحیت۔گجرات/خانیوال/چکوال اور گردونواح روزمرہ سفالیات اور ٹیرراکوٹاعلاقائی منڈی کے لیے بنیادیں موجود ہیں۔بلوچستان و کےپی کے دیہات دیئے، گھڑے، مٹی کے چولہے سادہ مگر پائیدار اشکال موجود ہیں۔
ان مراکز میں اگر ڈیزائن اسکولز، ای-کامر س اور سیاحت کو جوڑ دیا جائے تو روزگار کی نئی راہیں نکل سکتی ہیں۔
“اچھی چیز” بنانا کافی نہیں شہری کچن کے سائز، انڈکشن/گیس چولہوں، اور ڈِش واشر مطابقت کے بغیر پروڈکٹ مارکیٹ فِٹ نہیں پکڑتی۔ بے قاعدہ گلیز/رنگ بعض اوقات سیسہ/کیڈمیم آلودگی کا خدشہ۔مٹی کے پائیدار، چِپ ریزسٹنٹ برتن تیار کرنے کے لیے بہتر بھٹّی/ٹکنیک درکار ہوگی اس کے لیے سرمایہ چاہیے۔
کس کی مٹی؟ کس کمہار کے ہاتھ؟”—یہ کہانی نہ ہو تو ہینڈ میڈ شے **کموڈیٹی** بن جاتی ہے۔
## بقا کی حکمتِ عملی: گِرا چاک دوبارہ گھمائیں
**(الف) ڈیزائن و جدّت**
* **ہائبرڈ پروڈکٹس:** اندر فوڈ سیف گلیز، باہر خام مٹی کا لمس؛ یا مٹی + لکڑی/بانس ہینڈل۔
* **ماڈیولر سیٹ:** چھوٹی شہری جگہوں کے لیے اسٹیک ایبل گھڑے/جار، ائر ٹائٹ مٹی ڈھکن، اسپِل پروف ڈیزائن۔
* **انڈکشن/اوون فرینڈلی چٹّی:** مناسب تھرمل شاک ریزسٹنس کے ساتھ—یہی یو ایس پی۔
**(ب) سرٹیفیکیشن و معیار**
* **فوڈ سیفٹی لیب ٹیسٹ:** “Lead/Cadmium-free” اسٹیمپ۔
* **جی آئی ٹیگ اور ایتھنٹیسٹی کارڈ:** “ملتان بلو پوٹری—اصلی” یا “ہالہ کاثی—اصل کاریگر” کی مہر۔
**(ج) مارکیٹنگ و کہانی سنانا**
* **QR کوڈ پر کاریگر کی کہانی:** چند منٹ کی ویڈیو/پروفائل—خریدار اور بنانے والے کا رشتہ۔
* **اربن پاپ اپ اسٹورز/کرا프트 فیسٹیول:** لوک ورثہ، آرٹ کونسلز، یونیورسٹی بازار؛ لائیو چاک ڈیمو۔
* **انسٹاگرام/فیس بک شاپ + ہول سیل کیٹلاگ:** فوٹو اسٹوری ٹیلنگ، ریلس، شیف/فوڈی کولیبز (مٹی کی چٹّی میں بریانی/دال کی ریسپی ویڈیوز)۔
**(د) فنانس و تنظیم**
* **کوارپریٹو ماڈل:** مشترکہ بھٹّی، مشترکہ پیکنگ/لاگت؛ انفرادی کاریگر کی لاگت کم۔
* **مائیکرو فنانس و ہنر اپگریڈیشن:** نئے چاک، برقی بھٹّی، گلیزنگ کِٹس کے لیے آسان قرضے۔
* **بی ٹو بی چینلز:** ریستوران/کیفے/ہوم ڈیکور برانڈز کے لیے مخصوص لائن—لوگو کندہ، کسٹم سائز۔
**(ہ) تعلیم و ادارہ جاتی ربط**
* **ڈیزائن اسکول پارٹنرشپ:** NCA/IVS/PUC کے اسٹوڈیوز سے سمیسٹر پروجیکٹس کمہار مراکز میں—“ڈیزائن برائے سماج”۔
* **اسکول نصاب میں لائیو کرافٹ کلاس:** بچوں کے ہاتھ مٹی لگیں گے تو مستقبل کے صارف و کاریگر دونوں جنم لیں گے۔
* **سیاحت سے جوڑ:** ہالہ/ملتان/دیہی مراکز میں “کمہار گاؤں” تجرباتی ٹور—بناؤ، پکاؤ، ساتھ لے جاؤ۔
## پالیسی تجاویز: حکومت و ادارے کیا کریں؟
1. **کرافٹ کلسٹر زونز:** خام مٹی کی معیاری کان کنی، ایندھن سبسڈی، مشترکہ کلین بھٹّیاں، سیفٹی گیئر۔
2. **ایکسپورٹ فیسلیٹیشن:** ایکسپورٹ سرٹیفکیشن، پیکنگ، شپنگ ٹریننگ—حساس برتنوں کی لاجسٹکس۔
3. **جی آئی قانون کا فعال نفاذ:** خطے اور اسلوب کی محافظت؛ نقل و “فیک ہنڈ میڈ” کے خلاف کارروائی۔
4. **خریداری کی سرپرستی:** سرکاری دفاتر/ثقافتی مراکز میں سفالیات کی لازمی خرید—کاریگروں کے لیے **بیس لائن ڈیمانڈ**۔
5. **ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس تعاون:** سرکاری/نیم سرکاری ای-کامر س پورٹل پر مستند کمہار برانڈز کی آن بورڈنگ۔
## میڈیا، سماج اور آپ—ہم کیا کر سکتے ہیں؟
* **گھر میں ایک چیز مٹی کی ضرور رکھیں:** گھڑا، ڈنر سیٹ کا ایک حصہ، یا چائے کے چھ کپ—مانگ پیدا کریں۔
* **تحفے کی معیشت بدلیں:** “گفٹ ہیمپر” میں ہینڈ میڈ سفالیات شامل کریں۔
* **کہانی شیئر کریں:** خرید کے ساتھ کاریگر کی کہانی اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لازماً لکھیں۔
چاک رکے نہیں—پکڑ بدلی جائے
کمہار کا ہنر ختم نہیں ہوا، بس **بازار کی زبان** بدلی ہے۔ اگر ہم **ڈیزائن کی جدّت، معیار کی یقین دہانی، کہانی کی طاقت، اور منڈی کی رسائی** کو ایک دھاگے میں پر دیں تو مٹی کے برتن دوبارہ ہماری روزمرہ زندگی میں لوٹ سکتے ہیں۔ یہ بقا صرف ایک پیشے کی نہیں؛ یہ ہمارے **ماحولیاتی شعور**، **صحت مند عادات** اور **ثقافتی وقار** کی بحالی بھی ہے۔ مٹی ہمارے ہاتھ میں ہے—اسے شکل دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
No comments:
Post a Comment